حکمرانی اور قانون کی پاسداری

632

پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں حکمرانی اور اقتدار کے لیے قانون وآئین کی پاسداری ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک جتنے بھی فوجی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ان سب نے آئین کی خلاف ورزی کی اورآئین کی شق6کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوئے لیکن اس جرم کے ارتکاب پر کسی کو بھی سزا نہیں ہوسکی۔ جنرل پرویز مشرف کے سوا باقی سب تو عدم کو سدھارے اور جنرل پرویز مشرف پر مقدمات ہیں مگر وہ ان کا سامنا کرنے کے لیے واپس آنے کی ہمت ہی نہیں کررہے۔لیکن جنرلوں کے علاوہ سول حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ آصف علی ز رداری 5برس تک ملک کی صدارت کرگئے گوکہ وہ متعدد مقدمات سے بری ہوتے چلے گئے لیکن وہ اپنے خلاف عمومی تاثر دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اب بھی مختلف بدعنوانیوں میں ان کا نام آتا رہتا ہے۔ مگر نیا تماشا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے غیر صادق،غیر امین،جھوٹا اور نااہل قرار دیا گیا شخص پاکستان پر حکمران جماعت کا صدر بنا ہوا ہے اور اس کی سند قومی اسمبلی سے جاری کی گئی ہے۔ کیا یہ اس قوم کا المیہ نہیں ہے؟کتنی ہی تاویلات پیش کردی جائیں کہ عدالت سے نااہل قرار دیا شخص سیاسی جماعت کی قیادت کرسکتا ہے لیکن یہ بات بہر حال باعث شرم ہے۔ قومی اسمبلی میں جن 163افراد نے نواز شریف کے حق میں ووٹ دیا ان کے بارے میں ن لیگ کی حریف جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بہت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ان لوگوں کو ڈوب مرنا چاہیے۔لیکن خود عمران خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرکے نواز شریف کا ساتھ دیا ہے۔ ان کے آنے سے کوئی بڑا فرق تو نہیں پڑتا لیکن حزب اختلاف کا ایک ووٹ تو بڑھ جاتا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ جب تک حکمرانوں کے دامن پر بدعنوانی کے داغ ہیں پاکستان کا وقار داؤ پر لگارہے گا ۔لیکن بے داغ کردار کے حکمران مستقبل قریب میں تو اقتدارکرتے نظر نہیں آتے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ تبدیلی کی کوششیں ترک کردی جائیں۔ کوشش کرتے رہنا انبیاء کرام کی سنت رہی ہے۔ ایک اور مضحکہ خیز معاملہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ہے ۔ انہیں مفرور قراردیا جاچکا ہے لیکن وہ بدستور اس ملک کے وزیر خزانہ ہیں اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپرملز میں بدعنوانی کا ثبوت لندن کے ایک اسپتال میں پڑا ہوا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسحاق ڈار کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ اور وہ آکر کریں گے بھی کیا۔ ان کی جائداد،اہل خانہ اور تمام مفادات پاکستان سے باہر ہیں۔ بطور وزیر خزانہ انہیں اگر پاکستان سے کوئی دلچسپی تھی بھی تو اب نہیں رہی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ حکمران جماعت کا صدر نااہل اور وزیر خزانہ کے وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف کے خلاف بیان ریکارڈ کراچکے ہیں جس میں انہوں نے نوازشریف پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا تھا۔ اس لیے ان کی واپسی حکمران جماعت کو بھی قبول نہیں ہوگی کہ وہ اپنی کھال بچانے کے لیے ایک بار پھر کچا چٹھا نہ کھول دیں۔ وہ اپنا دل سنبھال کر لندن کے اسپتال میں پڑے ہیں اس کے باوجود وہ وزیراعظم کی کابینہ میں شامل ہیں اور بستر پر پڑے پڑے خزانہ کے امور بھی چلارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنا استعفا بھیجا تھا جسے حکومت نے چھٹی کی درخواست میں بدل دیا اور ان کی 3ماہ کی چھٹی منظور ہوگئی۔ احسن اقبال دھرنے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دھونس سے وکٹ گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔لیکن دھونس سے کسی مفرور اور اسپتال میں پڑے ہوئے شخص کو وکٹ پر کھڑا رکھنا بھی تو ظلم ہے۔ اسحاق ڈار کووزیر خزانہ بنائے رکھنے کا کوئی جواز رہا نہیں ہے۔ کیا حکومت کے پاس کوئی ایسا معقول شخص نہیں رہا جو وزیر خزانہ بن سکے؟لیکن حکومت بھی دھونس سے کام لے رہی ہے۔ اسحاق ڈار میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوارہے ہیں جس کو نیب نے تصدیق کے لیے لندن بھجوادیا ہے۔ اگر وہ اتنے ہی بیمار ہیں اور دل کی شریانیں بند ہیں تو ان پر وزارت خزانہ کا بوجھ لادنا ویسے بھی ظلم ہے۔ جہاں تک میڈیکل سرٹیفکیٹ کا تعلق ہے تو آصف علی زرداری بھی سوئس عدالت میں پیشی سے بچنے کے لیے ایسے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے رہے ہیں جن میں ان کی دماغی حالت مشکوک ظاہر کی گئی تھی۔ اب رہے عمران خان جو آئندہ وزیراعظم بننے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو ان پر بھی چار مقدمات چل رہے ہیں جن کا تعلق اسلام آباد دھرنے کے دوران میں پارلیمنٹ پر حملہ اور ایک پولیس افسر پر تشدد کے الزامات ہیں۔ اس لحاظ سے تو وہ حکمرانی کی شرائط پر پورے اترتے ہیں۔