جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ

446

ماہ ربیع الاوّل خوشی اور غم کا امتزاج ہے۔ خوشی اس بات کی کہ عالم انسانیت کو رفعت وبلندی کے نئے جہانوں سے آشناکرنے کے لیے سید المرسلین ؐ اس جہان میں تشریف لائے اور غم اس بات کا کہ جن کے سامنے رفعت وبلندی کے تمام آفاق دست بستہ کھڑے ہیں اسی ماہ تمام میں ہم سے رخصت ہوئے۔ آمد کی خوشی محبت وشوق کے سلسلوں کو دراز سے دراز تر کرتی ہے تو رخصت اس خوشی کو غم آمیز کرکے توازن عطا کرتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں آپ ؐ کی ذات سے محبت اور لگن کے مناظر مسلم دنیا کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ ہمارے گلی کوچے بھی اس خوشبو کو پرسوز انداز سے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہماری افتاد طبع محبت کے جو اسلوب اختیار کرتی ہے وہ آپ ؐ کی سیرت مطہرہ سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔
گزشتہ برس ماہ ربیع الاول کی بات ہے۔ دن بھر کا تھکا ہارا بدن اس چاہ میں گھر پہنچا کہ نیند ماں کی طرح آغوش میں لے لے۔ ہم جسے گھر کہہ رہے ہیں وہ دوسری منزل پر واقع ایک مناسب سا فلیٹ ہے۔ دروازے سے اندر داخل ہی ہوئے کہ ایک بیکراں شور نے ہمیں گھیر لیا۔ اپنے کمرے میں قدم رکھا تو اس قدر شور کہ بات کرنا مشکل۔ بیگم ایسے مرض کا شکار ہیں جس میں دوا لیتے ہی مسلسل اور بلا رکاوٹ نیند ضروری ہے۔ وہ بیچارگی کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ گیلری سے جھانک کر دیکھا باہر گلی میں قناتیں لگی تھیں۔ اسٹیج پر پینا فلکس سے مقدس مقامات کی بہت بڑی بڑی شبیہیں لگی تھیں۔ جہازی سائز کے بڑے بڑے سیاہ ایکو چیمبر اسٹیج پر اور گلی میں رکھے ہوئے تھے۔ کھمبوں سے لگے دو لاؤڈ اسپیکرز کا رخ ہماری گیلری کی طرف تھا۔ لیکن اس تمام اہتمام میں حاضرین جلسہ کی تعداد محض اتنی کہ ایک صاحب زادے اپنی نعت خوانی کا شوق پورا کر رہے تھے اور تین چار افراد بیٹھے انہیں سن رہے تھے۔ رات بارہ بجے کے بعد مرکزی مقرر تشریف لائے۔ ان کی آمد کے بعد حاضرین کی تعداد بیس پچیس کے اعداد کو چھو سکی۔ ان کے نشست سنبھالتے ہی جو نعرے لگے لاؤڈ اسپیکروں اور ایکو چیمبرز نے انہیں فلک شگاف اور دلخراش بنادیا۔ بمشکل تھوڑی دیر پہلے ہی بیگم کی آنکھ لگی تھی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھیں۔ نیند آور دواؤں کے خمار اور نیند کے ٹوٹنے سے ان کے دل پر جو گھبراہٹ اور بے چینی طاری ہوئی ہے ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ انہیں کون سے ہسپتال لے کر جائیں۔ نعروں کے بعد مقرر صاحب نے مائیک سنبھالا۔ پہلے تقاریر خوش آوازی سے مشروط ہوتی تھیں۔ اب تقریر اور اچھی آواز، بات کا دلربا انداز، متضاد باتیں ہیں۔ مقرر صاحب کی آواز ایسی کھردری اور کڑک دار تھی کہ اس میں سے الفاظ اور الفاظ میں سے معانی ڈھونڈنا مشکل تھے۔ دین کے نام پر کمزور باتیں، استدلال کے بجائے جذبات کے گھوڑے پر سوار ہوکر بیان کرنا آج کل مذہب ہے۔ نہ جانے کون خوش نصیب تھے جنہیں سماعت کو رسوخ فی العلم ملتے تھے۔ آج کل تو سطحی باتیں جو زیادہ زور وشور اور گھن گرج سے کرسکے وہی صاحب علم ہے۔ بیگم کی خراب ہوتی حالت کے پیش نظر خیال گزرا کہ جا کر اہل مجلس سے آواز کم کرنے کی درخواست کریں۔ لیکن اسے مداخلت فی الدین سمجھا جائے گا، ہمیں جرات نہ ہوئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پورے مہینے ہی متعدد بار اس مشکل سے گزرنا ہے۔ نہ جانے مہینے میں کتنی بار اور کہاں کہاں ہمیں قناتوں سے بند گلیوں، بند راستوں اور ان کی وجہ سے نہ جا نے کن کن گلیوں سے گزر کر گھر پہنچنا پڑے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
بارہ ربیع الاول کو ہر شہر، قصبے اور علاقے میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ چراغاں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر سڑک، ہر گلی، سرکاری ہی نہیں غیر سرکاری عمارتیں بھی برقی قمقموں سے آراستہ ہوتی ہیں۔ پورے پورے پلازہ ہی نہیں فلیٹوں کے مکین بھی اپنے فلیٹوں کی تین تین فٹ گیلریوں پر بھی چار جھالریں ہی سہی سجانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ سڑکوں پر دو رویہ ہی نہیں سبز ٹیوب لائٹوں اور سنہری جھالروں سے سروں کے اوپر بھی بہت دلکش چراغاں کیا جاتا ہے۔ عقیدت کے اس جذبے کو بجلی کہاں سے دستیاب ہوتی ہے۔ اس باب میں خاموشی ہی زیبا ہے۔ اس دن شہروں کی تمام چھوٹی بڑی سڑکیں بند ہوتی ہیں جن پر فلوٹ نما ٹرک رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان پر قرآن کی تلاوت اور احادیث نبوی سے زیادہ نعتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ ٹرکوں پر اس قدر شور ہوتا ہے جلوس کے راستے میں واقع مساجد میں نماز باجماعت اور بعد میں سنت اور نوافل کی ادائیگی مشکل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ سب سرکار رسالت مآب محمد عربیؐ سے عقیدت کے اسالیب ہیں۔ ان اسالیب کو آپ ؐ کی تعلیمات سے کیا نسبت ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی اہل عقیدت کو نہ فر صت ہے نہ دماغ۔
اہل سیاست بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ناموس رسالت پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا لیکن آج یہ ایک ایسے مذہبی گروہ کا معاملہ ہے جو الیکشن میں بھی حصہ لے چکا ہے۔ نصف ماہ سے زائد ہونے کو آرہا ہے اسلام آباد اور راولپنڈی مفلوج ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کام نہیں ہورہا، تعلیمی ادارے بند ہیں، مریضوں کا براحال ہے، تجارت اور کاروبار ٹھپ ہیں، عدالتوں کے راستے مسدود ہیں، مزدوروں اور روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے حب رسولؐ کے نام پر ہے۔ اہل دھرنا سے کون دریافت کرے کہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے مذہب کے بے جا استعمال کی اور لوگوں کو تکلیف دینے کی اسلام یا شریعت مطہرہ نے کہاں اجازت دی ہے۔ شریعت کے کس اصول کی رو سے اسے حب رسول قرار دیا جاسکتا ہے۔
کراچی میں بھی صورت حال یہی ہے۔ یہاں کسی دینی اور سیاسی جماعت کے کارکنان جاں بحق ہوجائیں۔ احتجاج کا پہلا قرینہ انہیں نمائش چورنگی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ وہاں دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نمائش چورنگی کی کراچی کی شاہراہوں کے نظام میں وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں دل کی ہوتی ہے۔ نمائش چورنگی بند سمجھیے پورا شہر عذاب میں مبتلا۔ جو متبادل راستے اختیار کیے جاتے ہیں ان میں بھی بد ترین ٹریفک جام۔ اہل شہر کو منتشر اور پریشان کرکے دینی اور سیاسی جماعتیں اگر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ لوگوں میں اپنے لیے ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا کر سکتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ذرا وہ ان مواقع پر متبادل راستوں اور گلیوں میں ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے اپنے بارے میں جذبات ملاحظہ کرلیں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا راستہ کٹ رہا ہے یا منزل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ وہ منزل جو لوگوں کے دل میں بستی ہے۔
آپؐ قدم قدم پر اس بات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ شب برات قبرستان تشریف لے جانا تھا، اس آہستگی سے اُٹھے کہ برابر میں سیدہ عائشہ کی نیند میں خلل نہ ہو۔ شب برات کا اٹھنا فضیلت کی بات تھی لیکن واجب یا فرض نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ آپ ؐ کا فرمان ہے ’’مسلمان ہے ہی وہ کہ اس کی زبان، اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریم ؐ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ راستوں پر بیٹھ کر مجلس مت جمایا کرو، اس سے بچو۔ آگے آپؐ نے فرمایا راستے کا حق دیا کرو۔ اس بات کی وضاحت میں فرمایا گیا کہ دوسروں کو تکلیف سے بچاؤ۔ یعنی کسی کو تکلیف پہنچانے کے جو بھی طریقے ہوسکتے ہیں ان سے بچو۔ یہ مجلس جو تم نے جما رکھی ہے اس کی وجہ سے اگر گزرنے والوں کو گزرنے میں تکلیف ہورہی ہے، گزر نہیں پارہے ہیں یا ان کو لمبا چکر کاٹنا پڑ رہا ہے تو پھر یہ مجلس تمہارے لیے گناہ کا سبب ہوگی، گناہ کا ذریعہ بنے گی۔ دین کی اساس اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت ہے۔ وحی ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تو اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ آپؐ کی بعثت اللہ کا احسا ن ہے۔ دین شوق پورا کرنے کا نام نہیں ہے۔ دین عالی مرتبت ؐ کی اطاعت کا نام ہے۔ اس حوالے سے اور بھی کچھ عرض کرنا ہے لیکن امت سید لولاک سے خوف آتا ہے۔