ایک اور سنگین حادثہ

363

گزشتہ جمعہ کو کراچی میں ٹریفک کا ایک اور المناک واقعہ پیش آیا جس نے برسوں پہلے کے ایک ایسے حادثے کی یاد دلا دی جس میں ایک لڑکی بشریٰ زیدی تیز رفتار بس کی زد میں آ کر کچلی گئی تھی جس کے بعد پورے شہر میں جلاؤ ، گھیراؤشروع ہو گیا تھا اور شہر پر قابض ایم کیو ایم نے اس حادثے کو لسانی فساد برپا کرنے کا ذریعہ بنا لیا چنانچہ شہر میں پٹھانوں اور پنجابیوں کے خلاف خونریز تصادم شروع ہو گیا ۔ کراچی میں عام طور پر ٹرانسپورٹ جاہل ڈرائیوروں کے ہاتھ میں ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ کسی طرح ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور بے دریغ کسی کو بھی کچل ڈالتے ہیں ۔ ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں اور ان کی پشت پر ٹرانسپورٹ مالکان ہوتے ہیں ۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ حادثہ کرنے والا ڈرائیور فرار ہو جاتا ہے اور ملک میں کہیں بھی رو پوش ہو جاتا ہے ۔ ایسی خبر شاید ہی آتی ہے کہ حادثے کا ذمے دار ڈرائیور پکڑا گیا جمعہ کو ہونے والے حادثے میں ایم اے جناح روڈ پر اپنے باپ کے ساتھ اسکول جانے والی معصوم سی سکینہ کچلی گئی اور اس کا باپ زخمی ہے ۔ حادثے کی وجہ تیز رفتاری تھی ۔ دو بسیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ریس لگا رہی تھیں ۔ یہ مناظر کراچی کی سڑکوں پر عام ہیں اور اندر بیٹھے ہوئے مسافر لرزتے رہے ہیں ۔ ٹریفک پولیس کو یہ نظر ہی نہیں آتا ۔ ایسے حادثات کی اصل ذمے دار ٹریفک پولیس ہے ۔ حادثے کے بعد یہ ہوا کہ مشتعل افرادنے دونوں بسوں کو آگ لگا دی ۔ پولیس نے11شہریوں کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کر کے اپنا فرض پورا کیا اور ریس لگانے والی بسوں کے ڈرائیوروں ، کنڈکٹروں اور بس مالکان کو تلاش کرتی رہی ۔ رات گئے ایک ڈرائیور پکڑا گیا جس کا تعلق اردو بولنے والو ں سے ہے ۔لیکن جب تک تیز رفتاری اور سنگین حادثات پر سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی یہ سلسلہ نہیں رکے گا ۔ جب ایسا ہونے لگتا ہے تو ٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن ہنگامہ کر دیتی ہے۔