چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا ضروری ہے

337

افروز عنایت
اریبہ: عرشیہ… یہ دیکھو بڑا زبردست برانڈڈ سوٹ ہے، اس کا رنگ بھی بڑا پیارا ہے، تم پر سوٹ کرے گا، میں نے دو سوٹ خرید لیے ورنہ میں خرید لیتی۔
عرشیہ نے سوٹ کی قیمت دیکھی تو واپس رکھ دیا، حالانکہ اسے بھی بہت پسند آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ یہ سوٹ خرید تو لے گی، نوید شاید ناراض بھی نہ ہو، لیکن اسے معلوم تھا کہ اس سوٹ کا خریدنا اس کے گھر کے ’’بجٹ‘‘ پر ایک بڑا بار (بوجھ) ہوجائے گا۔ لہٰذا اس نے ایک درمیانی قیمت کا سوٹ خرید لیا۔،جس پر اس کی کزن نے جو اس کی گہری دوست بھی تھی، خوب مذاق اڑایا کہ شادی کے بعد وہ کنجوس ہوگئی ہے۔
عرشیہ کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ اچھا کھانا پینا، گھومنا پھرنا سب ہی کچھ حاصل تھا۔ لیکن بے جا آزادی نہ تھی۔ اپنی دینی حدود کے اندر رہ کر خوشحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ والدہ کا آنا جانا دینی محفلوں میں تھا جہاں کبھی کبھار وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی لے جاتی تھیں۔ عرشیہ کی شادی بظاہر خوشحال گھرانے میں ہوگئی لیکن نوید پر دہری ذمہ داریاں عائد تھیں۔ ماں باپ، دو جوان بہنیں، ایک چھوٹا بھائی جو ابھی زیر تعلیم تھا۔ باپ کی پنشن اور نوید کی معقول آمدنی میں گھر کا صحیح طرح گزارا ہوجاتا تھا، لیکن بے جا خرچ یا فضول خرچی کی گنجائش نہ تھی۔ ہر شخص چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کا عادی تھا۔ عرشیہ کو شروع شروع خاصی دقت ہوئی، لیکن گھر والوں اور خصوصاً نوید کے حُسنِ سلوک کی وجہ سے وہ بھی عادی ہوگئی۔ وہ پوری کوشش کرتی کہ فضول خرچی سے بچے اور شوہر کو پریشان نہ کرے۔ اس بات سے گھر والے اور نوید بھی بہت حد تک واقف ہوچکے تھے اس لیے اُن کے دل میں عرشیہ کی عزت بڑھ گئی۔ وہ اچھا کھاتی پیتی لیکن ہر ممکن کوشش کرتی کہ بجٹ کو مدنظر رکھ کر خرچ کرے۔ جب اس کی نند کی شادی قریب آئی تو اسے اس بات کا بھرپور احساس تھا کہ بے شک اس کے شوہر کی ایک معقول آمدنی ہے لیکن اِس وقت اُس کے سر پر بہن کی شادی کا بوجھ ہے، لہٰذا جب نوید نے اسے اور بچے کے لیے شادی کی تیاری کے لیے رقم دی تو اس نے بچے کے لیے کچھ رقم لے کر نوید کو باقی رقم واپس کردی کہ اس کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ بَری اور جہیز کے بہت سے فینسی جوڑے موجود ہیں، وہ ان ہی میں سے چند جوڑے نکال کر بنوا لے گی۔ غرض کہ ہر موقع پر وہ اس بات کا خیال رکھنے لگی کہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے اور فضول خرچی سے بچے۔
عرشیہ کے اس مثبت رویّے کی وجہ سے نوید نہ صرف پُرسکون رہنے لگا بلکہ اس کے دل میں اپنی بیوی کے لیے عزت اور محبت بڑھ گئی، وہ ہر موقع پر اس کا خیال رکھنے لگا، یہی نہیں بلکہ گھر والے بھی اس پر مان کرتے۔ صرف اس ایک اخلاقی اور معاشرتی خوبی کی وجہ سے ’’یہ گھر‘‘ جنت کا گہوارا کہا جاسکتا ہے۔
………
ارقم نے ثانیہ کو شادی کی رات منہ دکھائی میں کلائی میں باندھنے والی گھڑی پہنائی تو وہ بجھ گئی، بڑی رُکھائی سے کہنے لگی ’’آج ہماری شادی کی رات ہے، تمہیں مجھے گولڈ کی کوئی قیمتی شے دینی چاہیے تھی‘‘۔ ارقم اور ثانیہ دونوں کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ شادی سے پہلے ہی ارقم کے گھر والوں نے اپنی مالی حیثیت خصوصاً ارقم کی ملازمت کے بارے میں واضح کردیا تھا تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ثانیہ چار بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی۔ ماں نے ہمیشہ اُسے سنہری سپنے دکھائے تھے۔ ناز و نخرے میں پلی ثانیہ جب سسرال پہنچی تو اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ ہر وقت شوہر سے نت نئی فرمائشیں کرتی۔ فضول خرچی اس کی عادت تھی، جس پر وہ قابو نہ پاسکی۔ بجائے یہ کہ وہ ’’چادر دیکھ کر پائوں پھیلاتی‘‘ حد سے تجاوز کرنے لگی۔ ارقم کی مالی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اس کی فرمائشیں پوری کرتا، لہٰذا دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے کیونکہ ضرورت کے سوا ثانیہ کی فرمائشیں پوری کرنا ارقم کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ صرف اس قابل تھا کہ اس کی جائز ضرورتیں پوری کرسکے۔ آخر نوبت طلاق تک پہنچی۔ اس طلاق کا نہ ہی ارقم کو اور نہ ہی ارقم کی فیملی کو افسوس ہوا، بلکہ یوں لگا جیسے کسی ’’بلا‘‘ سے انہیں چھٹکارا حاصل ہوا ہو۔ ارقم نے دوسری شادی کرلی۔ اسی آمدنی میں اس کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ گزارا کررہی ہے۔ دونوں میاں بیوی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔
………
مذکورہ بالا دونوں واقعات میرے سامنے پیش آئے۔ یہی نہیں بلکہ اسی نوعیت کے کئی واقعات ہم اپنے اردگرد آئے دن دیکھتے ہیں۔ ایک بچی نے بتایا کہ اُس کے شوہر کی آمدنی میں گھر کے 8 بندے گزارا کررہے ہیں صبر و شکر کے ساتھ، جبکہ اتنی ہی آمدنی والے ایک شخص کی بیوی ہمیشہ اپنے شوہر سے نالاں رہتی ہے۔ آئے دن بلاضرورت اخراجات کی وجہ سے شوہر بے سکون رہتا ہے، اور سوچتا ہے کہ کس طرح اس رزقِ حلال سے اس عورت کو مطمئن اور خوش رکھوں۔ اس صورتِ حال میں اکثر یا تو گھر کا سکون ختم ہوجاتا ہے یا گھر کے امن و سکون کی خاطر بندہ اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ بے جا اخراجات و فضول خرچی کی عادت کی بدولت ہی قرض، چوری، رشوت، ڈکیتی جیسی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں جو کہ بندے کی دنیا اور آخرت کی تباہی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی گزارنے کے تمام طریقے واضح کیے ہیں۔ ہر حکم کے پیچھے بے پناہ فوائد ہیں، مصلحتیں ہیں۔ صرف غور و فکر و عمل کرنا ضروری ہے۔
سورۃ انعام کی آیت 141 ہے کہ ’’اور بے جا خرچ نہ کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
اس آیتِ کریمہ کو ترجمہ کے ساتھ جب پڑھ رہی تھی تو اَن گنت ایسے واقعات آنکھوں کے سامنے آگئے جہاں لوگ اس برائی میں مبتلا تھے اور ان کے گھریلو حالات اور واقعات میرے سامنے آتے گئے۔ بیشک میرا اللہ سب جانتا ہے ان برائیوں کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں۔ خصوصاً میں خواتین کو ان برائیوں میں مبتلا دیکھتی ہوں، جبکہ خواتین میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ محدود اور مناسب آمدنی میں سے اپنے بجٹ کے مطابق کفایت شعاری سے خرچ کریں تو اللہ نہ صرف برکت دیتا ہے بلکہ کامیابی بھی عطا کرتا ہے۔ میں نے خود محدود آمدنی کے باوجود جبکہ چاروں بچے بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے، عزت اور صبر و شکر سے زندگی گزاری اور رب نے بے تحاشا برکت عطا کی۔ خدا ہم سب کو خصوصاً خواتین کو ان فضولیات سے بچائے اور اپنی اولادوں کی بھی تربیت و تعلیم میں اس بات کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین