جہاں زیب راضی
کسی بھی معاشرے کو بنانے یا بگاڑنے کا سہرا اس قوم کے دو طبقات کے پاس ہے ایک وہ طبقہ جس کے پاس اس قوم کے مذہبی و دینی معاملات ہیں اور دوسرا وہ جس کے پاس پوری ایک قوم تیار کرنے کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے یہی وہ طبقات ہیں جن کی اوّل تو ہماری قوم میں کوئی پذیرائی نہیں ہے۔ امام مسجد جس کو نہ صرف نمازوں کی بلکہ پورے محلے کی امامت کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ اوّل تو وہ بے چارہ ’حادثاتی‘ طور پر مسجد کا امام بن جاتا ہے۔ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہرحال معاش کی فکر تو اس کے ساتھ بھی لگی ہے۔ پہلے وہ کہیں پانچ ہزار روپے میں حفظ و ناظرہ کی کلاس لیتا ہے اور پھر محض دس اور بارہ ہزار روپے میں مسجد کا امام بن جاتا ہے۔ جہاں اس کو صبح ساری دنیا سے پہلے بیدار ہونا ہوتا ہے۔ پوری قوم میں یہی تو وہ ایک ذمہ دار ترین آدمی ہے کہ جو وقت کی پابندی کرتا ہے۔ سردی ہو یا گرمی، ہاری ہو یا بیماری ، خوشی ہو یا غمی خود کی طبیعت خراب ہو یا بیگم بچے کی اس کو ہر حال میں پوری پابندی کے ساتھ بروقت نماز شروع کروا دینی ہے۔ سردیوں میں تو شاید پھر ذرا جلدی فارغ ہوجائے لیکن گرمیوں میں تو رات گئے تک اپنے فرائض سر انجام دینے ہیں۔ اسی دوران کسی کا جنازہ آجائے یا رات گئے مووی اور ڈھول ڈھمکے کے بعد رات 12 یا 1 بجے نکاح پڑھانا ہو تو تب بھی یہی مولوی صاحب درکار ہیں۔ ہمارے مردے بخشوانے کے لیے بھی یہی مولوی جائے گا۔ جس کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے ہے۔ کہیں سے اس بے چارے کے پاس کھانا پینا آجائے کبھی صدقے کے نام پر کبھی نذر و نیاز کے نام پر اپنے بیوی بچوں سے عام طور پر دور یہ ’مولوی‘ کچھ کھا پی لے تو مولوی کھاتا بہت ہے۔ پھر کسی کا اپنے سیٹھ سے پھڈا ہوجائے ، بیوی سے لڑائی ہوجائے یا پڑوسی سے تلخ کلامی غصہ تو بہر حا ل اما م صاحب پر ہی نکلنا ہے۔ مسجد میں ’ فلاں ‘ صاحب کی بات اس لیے ہر حال میں مانی جائے گی کیونکہ وہ مسجد میں فنڈ سب سے زیادہ دیتے ہیں۔ وہ بے چارہ مولوی منبر سے بھلا کیا حق بات کرے گا جس کو ہر لمحہ اپنے دس ہزار چھن جانے کا ڈر لگا ہو۔
ذرا معاشرے میں جائزہ لیں زیادہ نہیں اپنے آپ سے پوچھ لیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ’اما م مسجد ‘ بن جائے؟ اب تو پھر بھی ذرا بہتر ہے خاص کر شہروں میں ورنہ پہلے تو جو گھر کا سب سے بگڑا ہو بچہ ہوتا تھا اسی کو مدرسے میں ڈالا جاتا تھا اگر کوئی معذور ہوجاتا تو وہ اللہ کے نام ہوجاتا اور کیوں نہ ہوتا ہم تو اللہ کے نام پر ویسے بھی سب سے ناقص چیز جو دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب ایسے بیانات دیں، ایسے خطبے دیں، ایسے اعلی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں کہ پوری قوم متقی پرہیز گار ، صالح با کردار پانچ وقت کے باجماعت نمازی اور خوش مزاج بن جائے۔ پہلے آپ اپنی قوم کے اعلی دماغ ، بہترین گھرانوں کے بچوں کو مساجد میں امام و خطیب بنائیں۔ ان کو سہولیات دیں۔ مساجد میں کم از کم دو ائمہ رکھیں تا کہ دونوں کو آسانی رہے نماز بوجھ نہ بنے بوقت ضرورت کہیں آجاسکیں۔ مقامی لوگ جب اپنے بچوں کو اس شعبے میں لائیںگے۔ مساجد میں امام بنائیں گے سا را محلہ با اخلاق ہوجائے گا۔
ذرا جائزہ تو لیں کراچی کی کتنی مساجد میں علاقائی ہیں ؟خدارا اس بات پر لسانی عصبیت پر محمول نہ کریں۔ مساجد آپ کی ، مساجد کے فنڈز آپ کے اور چندے آپ کے۔ مساجد کی کمیٹیاں اور ٹرسٹ آپ کے لیکن امام باہر کا کیونکہ آپ کا بچہ تو ملٹی نیشنل کمپنیز میں ملازمت کے لیے ہے، کاروبار سنبھالنے کے لیے ہے۔ بس غریب کا بچہ ہے ’امام مسجد‘ بننے کے لیے۔ آئمہ مساجد سے اس رویے اور سلوک کے ساتھ ’اسلامی انقلاب‘، ’امریکا کی تباہی‘اور لال قلعے پر سبز علم لہرانے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ پہلے مسجدوں کو ہدف بنائیں ، پڑھے لکھے قابل نو جوانوں کو جو مقامی ہوں مساجد کی امامت سونپ دیں۔ بخدا محلے کے محلے اسلامی معاشروں میں ڈھل جائیں گے۔
دوسرا مظلوم ترین طبقہ اساتذہ کا ہے۔ جی ہاں وہی اساتذہ کہ جن کے ذریعے سے آپ اپنے بچوں سے ’ ستاروں پر کمندیں ڈلوانا چاہتے ہیں ‘ آسمان سے تارے تڑوا کر لانا چاہتے ہیں۔ صبح سے لے کر سہہ پہر تک اس سے ہر کام نکلواتے ہیں۔ اس بے چارے کی ذہنی نشو ونما اور تربیت کے لیے امریکا اور یورپ کے جدید طریقۂ تدریس اور طرز تعلیم سکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پہلے اس سے تو پوچھ لیں کہ وہ اس شعبے میں ’ بذات خود‘ آیا ہے یا ’فی الحال نوکری نہیں ہے سوچا ٹیچنگ کرلوں‘ جیسا کوئی خیال لے کر آیا ہے۔ پرائمری اسکولوں میں پڑھانے والے نوے فیصد اساتذہ ’حادثاتی‘ طور پر اس شعبے میں آتے ہیں۔ سارا وقت ان کی زبان پر شکوے شکایتیں رہتی ہیں دوسرے شعبوں میں میں کام کرنے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور کیوں نہ دیکھیں۔ اسکول کے چوکیدار ، ڈرائیور حتی کہ چپڑاسی تک کی تنخواہ یا تو ان کے برابر ہے یا ان سے زیادہ ہے۔ ہم پانچ ،دس اور پندرہ ہزار روپے دے کر چاہتے ہیں کہ یہ بل گیٹس اور اسٹیو جابز پیدا کردیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کے پورے اصول و ضوابط محض تنخواہ پر لاگو کر کے اور کسی بھی قسم کی سہولیات نہ دے کر ہمیں اسکولوں سے ’علامہ اقبال‘ اور ’قائد اعظم‘ درکار ہیں۔ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جن کے لیے ٹیچنگ میں کسی بھی قسم کی چارمنگ ہے؟ یہ تو وہ شعبہ ہے جس میں صرف عزت تھی اور اب تو ’ گاہک ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے‘ والی سوچ نے ماں باپ اور بچوں کو کسٹمرز بنا دیا ہے۔ اس لیے اساتذہ کی وہ رہی سہی عزت بھی دلوں سے نکل گئی جو تھی۔ پہلے اساتذہ بچے کو اپنا سمجھتے تھے۔ ماں باپ کو بھی معلوم تھا ہڈی ہماری ہے اور گوشت استاد کا۔ بہترین ہیرے ان ہی لال پیلے اسکولوں سے نکلا کرتے تھے اور دل سے استاد کی عزت کیا کرتے تھے۔ پیسہ اس زمانے میں بھی نہیں تھا لیکن عزت تھی۔ اب تو اسکول کا مقصد بھی پیسہ کمانا ہے اور استاد بھی ’نوکری‘ کرنے اسکول آتا ہے۔ تربیت پرانے وقتوں کی بات ہوگئی ہے۔
تربیت تو محبت سے کی جاتی ہے حکم تو فیکٹری کا باس دیتا ہے۔ ’کارپوریٹ کلچر‘ میں تو کارپوریٹ اساتذہ ہی آئیں گے اور ان کے لیے بھی بچے گاہک کے سوا اور کچھ نہیں ہوں گے۔ آپ اساتذہ کو عزت اور سہولیات دینا شروع کریں۔ اُنھیں ’نوکر‘ کے بجائے استاد کا درجہ دیں۔ ان کو اپنے عمل سے باور کرائیں کہ آپ نوکری نہیں عبادت کر رہے ہیں اور ہم آپ کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ پھر کچھ اُمید ہے کہ ہم ایک بہتر نسل پروان چڑھا سکیں۔