سید اقبال چشتی
جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا، بلکہ اسے کمزور اورکئی حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے مسلسل سازشیں کررہا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ ناسمجھ علیحدگی پسند پاکستانی، بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو مل گئے جن کے ذریعے بھارت چنگاری کو ہوا دے کر آگ میں تبدیل کررہا ہے۔ کراچی ہو یا بلوچستان، وقتاً فوقتاً کبھی حقوق اور کبھی علیحدگی کا نعرہ لگاکر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اس کا ثبوت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری ہے جس نے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری پر سابق آرمی چیف جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ نے اپنے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا تھا کہ کلبھوشن کی گرفتاری عزیر بلوچ کے انکشاف کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عزیر بلوچ سے لے کر کلبھوشن اور علیحدگی پسند کراچی سے بلوچستان تک پاکستان دشمن ایجنڈے پر مسلسل کام کررہے تھے۔
جب سے کلبھوشن پکڑا گیا ہے بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ خاص کر بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے بلوچستان میں کو ئی تحریک نظر نہیں آتی، لیکن بیرونی ممالک میں بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے میں دشمن قوتوں کا علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینا اس بات کی علامت ہے کہ غیر ملکی پاکستان دشمن طاقتیں ایک مسلم ملک کو جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے، غیر مستحکم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں چاہے وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں بسوں اور ٹیکسیوں پر لکھے نعرے ہوں، یا پھر لندن میں بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے چلائی جانے والی اشتہاری مہم۔ سوال یہ ہے کہ کون یہ مہم چلا رہا ہے؟ ظاہر ہے سب سے پہلے جس تنظیم کا نام ذہن میں آتا ہے وہ BLA ہے، لیکن ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، اور ان اشہارات کے بل کس نے ادا کیے، کیا یہ معلوم نہیں ہے؟ یقینا بھارت اس سارے ڈرامے کے پیچھے ہے۔ یورپ جہاں معمولی کام کا بھی معاوضہ ادا کیا جاتا ہے، کیا اتنے بڑے پیمانے پر چلنے والی اشتہاری مہم بغیر کسی کمپنی اور پیسوں کے چلائی گئی تھی؟ یا یورپ کی ٹیکسی سروس اور بسیں چلانے والوں نے فی سبیل اللہ اس مہم کو سرانجام دیا؟ اس مہم کا سرغنہ کون ہے، یہ معلوم کرنے کے لیے اگر سرا پکڑا جائے تو اس کے دوسرے سرے پر BLA کے ساتھ بھارت کھڑا نظر آئے گا۔
افسوس اُس وقت ہوتا ہے جب غیر ملکی طاقتیں پاکستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ڈومور کے انداز میں کرتی ہیں۔ کیا یہ ممالک بھی اپنے اندر پلنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں؟ آئین اور قانون کی پاسداری کی باتیں کرنے والی ریاستیں ایک آزاد ملک کی خودمختاری پر حملہ آور ہیں۔ اگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ اپنے آپ کو پاکستان کی جگہ رکھ کر دیکھیں تب انہیں معلوم ہوگا۔ اگر پاکستان میں بھی برطانیہ سے آزادی کے لیے آئرلینڈ کی آزادی کی مہم مختلف شہروں میں چلائی جائے تو برطانیہ کو عالمی قوانین یاد آنے لگیں گے، لیکن خود عالمی قوانین بھول جاتے ہیں، بلکہ ایسی مہم کو اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دے کر فوجی کارروائی سے بھی دریغ نہیںکرتے۔ پاکستان سے مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ دہشت گردی کو اپنے طرزعمل سے پروموٹ کررہے ہیں یا اس کا سدباب کر رہے ہیں؟ بی ایل اے کے رہنماء اور الطاف حسین جو ایک ملک میں عدم استحکام پیدا کررہے ہیں اور ساتھ ہی کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو قبول کررہے ہیں، ایسے میں ان کو سیاسی پناہ دے کر کیا یہ ممالک عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں کررہے، اور دہشت گردی کی پشت پناہی نہیں کررہے! لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی پناہ حاصل کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مغرب کا دہرا معیار یہاں سامنے آتا ہے جب وہ پاکستان سے کالعدم تنظیموں کے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور خود سیاسی پناہ دیتے ہیں۔ یعنی کون کالعدم تنظیم ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ بھی مغرب خود ہی کرتا ہے۔ اس دہرے معیار ہی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں امن قائم ہونے کے بجائے دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ دنوں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد جو معاشی مجبوریوں سے تنگ آکر اپنے بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانا چاہتے تھے انسانی اسمگلروں کی بے حسی اور بے رحمی کا شکار ہوگئے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ پہلے15، پھر 6، اور 2 افراد کو علیحدگی پسندوں نے قتل کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جس ملک میں کرپشن اُوپر سے لے کر نیچے تک اپنے عروج پر ہو وہاں زیادہ سے زیادہ اور جلد کامیابی کے حصول کے لیے ان انسانی اسمگلروں نے دونوں طرف سے پیسے لے کر اپنا مطلب نکال لیا ہو اور کالعدم تنظیم کے ساتھ دشمن قوتوں نے ان معصوموں کو قتل کرکے ایک تیر سے کئی شکار کھیلے ہوں۔ کیا کراچی میں ’را‘ کے مقامی ایجنٹ معصوم شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث نہیں رہے ہیں؟ پھر محرومیوں اور مظلومیت کا رونا بھی رویا گیا۔ اس بات کا ثبوت ہمارے ایک سیاسی رہنما اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رکن عبدالرحمن کانجو کے بیان سے ملتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشیں ملنا کسی المیے سے کم نہیں ہے، پاکستان میں سیاست پہلے ہی زبان اور صوبوں کے نام پر ہورہی ہے، اس لیے عصبیت اور زبان کی بنیاد پر لڑاکر جہاں ملکی سیاسی لیڈرشپ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے، وہیں دشمن ممالک بھی عصبیت کے اس کھیل کو ہوا دے کر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے، جس طرح پولیس کے ڈی آئی جی پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد یہ کہا گیا کہ ان کا تعلق بھی پنجاب سے تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کی چالیں کامیاب ہورہی ہیں۔ مسلسل حکومتی رٹ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر میں چیلنج ہورہی ہے اور حکومت ’’دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘، ’’مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی‘‘ جیسے بیانات سے عوام کے غم و غصے کو کم کررہی ہے۔ انسانی اسمگلر پنجاب سے لے کر بلوچستان تک کا سفر ایک دو نہیں بلکہ درجنوں افراد کے ساتھ کرتے ہیں، کسی چیک پوسٹ پر نہیں پوچھا گیا کہ آپ لوگ بلوچستان میں کیا کرنے جارہے ہیں؟ لیکن کہیں بھی کسی بھی جگہ خفیہ اداروں کو شک نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی اطلاع ملی کہ انسانی اسمگلنگ ہونے جارہی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ہمارے اداروں کو نایاب پرندوں اور جانوروں کی اسمگلنگ کا پتا چل جاتا ہے لیکن انسانوں کی اسمگلنگ کا پتا نہیں چلتا۔ اسی لیے شاید کہا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے کام میں سب سے زیادہ ایمانداری برتی جاتی ہے۔ آئے روز اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں کہ بھارت اور ایران سے مضر صحت اشیاء پاکستان میں ٹافیوں اور چاکلیٹ کی شکل میں آرہی ہیں، ساتھ ساتھ پیٹرول بھی اسمگل ہوکر آرہا ہے، لیکن آج تک کوئی اسمگلر نہیں پکڑا گیا۔ اگر کوئی اسمگلر پکڑا بھی گیا توناکافی ثبوت کی وجہ سے رہا ہوگیا۔ اگر سخت قوانین کے ذریعے مجرموں کو واقعی سزا ہوجائے تو ان واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت اور اس کے ادارے مخلص ہوکر کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ’را‘ اور دیگر ایجنسیاں پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر ہی کام کریں گی۔
یہ بات سچ ہے کہ کفر نے ہمیشہ کفر ہی کا ساتھ دیا ہے، اور زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک اسلام اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولت کو کسی نے برداشت نہیں کیا۔ اس لیے پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اور اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے، یہ بات کسی کو برداشت نہیں ہورہی، اس لیے مشرقی پاکستان میں تعصب کی فضا پیدا کرکے پاکستان کو دولخت کیا گیا۔ اسی طرح اب کراچی اور بلوچستان دشمن کا خاص ہدف ہیں۔ لیکن پاکستان میں بدامنی کے خاتمے اور امن و امان کے لیے طاقت نہیں بلکہ سیاسی بصیرت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جہاں بھی مقامی اور بیرونی ایجنٹ مصنوعی طور پر سیاسی جغادری بناکر بٹھائے گئے ہیں یا بن گئے ہیں انہوں نے ہی ملک کو بحرانوں کی نذر کیا۔ اس مقام تک پہنچنے میں مصنوعی قیادت کو حکومتی اداروں کی آشیرباد بھی حاصل رہی ہے۔ جب تک ملک میں مصنوعی قیادت پرورش پاتی رہے گی اور پارلیمنٹ سے صحیح اور کرپشن سے پاک قیادت کو دانستہ طور پر کسی بھی ذریعے سے دور رکھا جائے گا تب تک ملک میں محرومیوں کے سائے کے ساتھ عصبیت اور علیحدگی پسند تحریکیں جنم لیتی رہیں گی۔ اگر اس کرپٹ ٹولے کے بجائے کرپشن سے پاک، پاکستان سے مخلص، عوام کے اندر رہنے والی سیاسی قیادت کو آگے آنے دیا جائے تو ملک ترقی اور خوشحالی کے ساتھ پُرامن ملک بن جائے گا۔