بنگلا دیش میں ظلم اور وحشت کا راج

550

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
بنگلادیش میں خون آشام بھارت نواز وزیراعظم حسینہ واجد کی قیادت میں سابقہ پاکستان کے حامیوں کے لیے ظلم اور وحشت کا راج جاری ہے۔ مزید 6 پاک نفوس کو پھانسی کا حکم سنا دیا گیا ہے۔ نام نہاد بین الاقوامی وار کرائمز کورٹ نے عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ایک ہی کیس میں 6 افراد کو یہ حکم سنایا۔ اس سے پہلے ملاّ عبدالقادر، مولانا مطیع الرحمن نظامی، قمرالزماں، علی احسن مجاہد، صلاح الدین چودھری اور میر قاسم علی کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ جب کہ پروفیسر غلام اعظم صاحب پیرانہ سالی میں جیل میں ہی فوت ہوچکے ہیں۔ ان سب کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ 1971ء میں اپنے ملک کی محبت و وفاداری کا دم بھر چکے تھے اور انہوں نے بھارتی قیادت میں پاکستان پر جارحیت کے موقع پر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ یہ سب سویلین تھے اور سیاسی کارکن تھے۔ پاکستانی فوج نے باغی بنگالیوں کے خلاف جو کارروائی مارچ 1971ء سے 16 دسمبر1971ء تک کی تھی اس کی ذمے دار وہ خود ہے لیکن اس کا خمیازہ یہاں کی عام آبادی اب تک بھگت رہی ہے۔
1974ء میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان جو سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا، جس کی بنیاد پر جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا اور 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کی وطن واپسی ممکن ہوئی تھی اس میں یہ مسئلہ بھی شامل تھا کہ بنگلہ دیش اپنے ملک میں موجود ان افراد پر مقدمات نہیں چلائے گا۔ بنگلادیش کے بانی اور پاکستانی انتخابات منعقدہ 1970ء میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے 1973ء میں جنگی کرائمز کورٹس قائم کی تھیں، لیکن اس معاہدے کے بعد اس نے عدالتوں کو کالعدم قرار دیا تھا اور سابقہ انتقامی کارروائیوں کے بجائے مستقبل کی سوچ کی نوید سنائی تھی، لیکن اس کی بیٹی نے 2008ء کی انتخابی مہم کے دوران ان عدالتوںکو بحال کرنے کی بات کی اور پھر برسراقتدار آنے کے بعد نہ صرف یہ بین الاقوامی عدالت قائم کی بلکہ تمام اعتراضات اور قانونی کمزوریوں کے باوجود اس کو فعال رکھا، اور اس کے ذریعے سینکڑوں سیاسی مخالفین پر مقدمے قائم کیے اور ان کو سزائیں سنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت کا خاص ہدف ملک کی بڑی اسلامی سیاسی تحریک جماعت اسلامی ہے، اور وہ مسلسل اس کے خلاف ہر ممکن کارروائیاں کررہی ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کی رو رعایت کی قائل نہیں ہے۔ اس کام میں اسے نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کی مکمل تائید و پشت پناہی حاصل ہے، جب کہ امریکی و دیگر یورپی اقوام بھی خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہیں۔ اسلامی تحریک ہونے کے ناتے ان کے ہاں بھی جماعت اسلامی معتوب ہے اور کسی بھی بہانے سے اس کے خلاف کارروائی کو وہ انسانی و بشری حقوق کی پامالی تصور نہیں کرتے۔ مسلم ممالک میں ایک توانا آواز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی ہے جنہوں نے ہمیشہ بنگلہ دیشی اقدامات کی مذمت کی ہے اور بارہا اس کو اس فعل سے منع کیا ہے، لیکن اب تک حسینہ واجد نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ دراصل پاکستانی حکومت کا کردار اس معاملے میں زیادہ اہم ہے اور بجا طور پر اس سے توقعات تھیں کہ وہ ان افراد کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے گی جنہوں نے متحدہ پاکستان کے لیے ایک جائز مؤقف اختیار کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکومت سے وابستہ یہ توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں اور موجودہ دور میں مسلم لیگی حکومت بھی ان کی حمایت اس انداز میں نہ کرسکی جس طرح کرنی چاہیے تھی۔
اِس بار بھی وزارتِ خارجہ کے نمائندے ڈاکٹر فیصل نے بدھ کے روز بنگلادیشی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اسے جمہوری عمل کے فروغ کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ اس سے پہلے بھی جب میر قاسم کی پھانسی کا معاملہ تھا یا علی حسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کی سزا کا… یا سب سے اہم امیر جماعت اسلامی بنگلادیش مولانا مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کا… اس موقع پر پاکستانی قیادت نے ایک محتاط رویہ اختیار کیا۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے تو کسی بھی موقع پر کوئی ردعمل نہ دیا، جب کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان مذمتی بیانات دیتے رہے۔ لیکن پاکستانی حکومت نے ایسا کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا جس کی بنیاد پر اس سلسلے کو روکا جاسکتا۔ اب بھی 200 کے لگ بھگ مقدمات چل رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر مقبول احمد اور جنرل سیکرٹری شفیق الاسلام بھی گرفتار ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کیے جارہے ہیں، حالانکہ ان کا 1971ء کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن بنگلہ دیشی حکومت اور عوامی لیگ کے قائدین جماعت اسلامی کی مخالفت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ایک عدالتی اہلکار نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر 1971ء کے وقت کسی کی عمر 4 سال بھی تھی تو وہ جنگی مجرم کہلایا جاسکتا ہے، یعنی جنگِ آزادی کی ٹکٹکی پر کسی کو بھی چڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ سب پاکستان کی مخالفت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ بنگلا دیشی وزیراعظم برملا کہتی ہے کہ یہاں پر پاکستان کے حامی عناصر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بنگلادیش کے چیف الیکشن کمشنر نے بیان دیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کے آزاد حیثیت سے بھی حصہ لینے کے روادار نہیں، وہ یہ برداشت نہیں کریں گے کہ بنگلادیش کی آزادی کے مخالف کسی بھی صورت میں یہاں انتخابی عمل میں شریک ہوں۔ یہ تمام بیانات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان اس معاملے میں شامل ہو اور عالمی فورمز پر بات کرے کہ 46 سال پرانے مسئلے پر اب کیوں کارروائی ہورہی ہے۔ پاکستان کی حامی آبادیوں بالخصوص بہاریوں کو جس بڑی تعداد میں مارا گیا تھا اس کا ذمے دار کون ہے، اور پھر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ اس طرح پاکستان نے اُن تمام افسران کو بنگلادیش جانے کی اجازت دی تھی جو اس موقع پر مغربی پاکستان میں تعینات تھے اور اُن میں سے جس نے بھی پاکستان میں رہنے کی خواہش ظاہر کی تھی وہ اب تک یہیں مقیم ہے۔ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ ان تمام نکات کی بنیاد پر پاکستان عالمی فورمز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنا کیس پیش کرسکتا ہے اور سفارتی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بنگلادیش حکومت پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ جب پاکستان دلچسپی لے گا تو اس کے دیگر حلیف ممالک اور مسلم ممالک بھی اپنا کردار ادا کرسکیںگے۔ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ نہیں چل سکتا۔ ترکی نے ایک موقع پر بنگلادیش پر بہت زور ڈالا تھا اور سفارتی تعلقات تک معطل کردیے تھے، لیکن پاکستانی حکومت کی سردمہری نے دبائو بڑھانے میں مدد نہ کی اور اس طرح معاملہ پھر سرد خانے کی نذر ہوگیا اور ترکی نے بھی بنگلادیش سے اپنے تعلقات بحال کرلیے۔ اب پھر موقع ہے، پاکستانی قوم، فوج اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ زندہ قومیں اپنے مفادات اور افراد کی حفاظت کرتی ہیں۔
ایک اور مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے، اور وہ ڈھاکا میں محبوس پاکستانی (بہاری) ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ Stranded Pakistanis کا مسئلہ بھی ہماری قومی عزت و وقار کا معاملہ ہے جس کو ہم فراموش کرچکے ہیں۔ میں خود ایک بار ڈھاکا میں ان کیمپوں میں گیا تھا اور حیران ہوا تھا کہ پاکستانی تاریخ کا یہ المناک باب اب بھی تشنہ طلب اور حل کا متلاشی ہے۔ وہاں موجود پاکستانی، حکومتِ پاکستان کی امداد کے منتظر ہیں۔ وقتاً فوقتاً حکومتوں نے قدریِ بے دلی سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ رابطۂ عالم اسلامی، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک نے مدد بھی کی تھی، لیکن یہاں پر سیاسی مفادات اور نسلی تقسیم و منافرت آڑے آئی اور تین لاکھ پاکستانیوں (بہاریوں) کو ہم پاکستان لاکر بسانے میں ناکام رہے۔ اس دوران پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین آئے، برما اور خود بنگلادیش سے بنگالی ادھر آئے اور قانونی و غیر قانونی طریقے سے رچ بس گئے، لیکن نہ آئے تو وہ لوگ نہ آسکے جنہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ اس وطن کی محبت میں گنوا دیا۔ یہ ایک شرمناک جرم ہے جس کا ارتکاب ہم نے بحیثیت مجموعی کیا اور اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب فیس بک پر کوئی اُن بنگالیوں کے حق میں بات کرتا ہے جو پاکستان کی حمایت میں تختۂ دار پر لٹکائے جارہے ہیں تو وہیں پر ہمارے نوجوان پاکستانی کمنٹس میں لکھ دیتے ہیں کہ آپ سے اپنا ملک تو سنبھالا نہیں جارہا اور لگے ہیں بنگالیوں کے پیچھے۔ اس رویّے کی وجہ ہمارے حکمرانوں کا شرمناک کردار ہے کہ وہ قومی مفادات کی سودے بازی کرکے اپنے غیر سنجیدہ اور عاقبت نااندیش پالیسیوں سے قوم کی نئی نسل کو غلط پیغام دیتے ہیں اور خالص پاکستانی قومی معاملات کو متنازع بنا دیتے ہیں۔
جن افراد کو تازہ ترین فیصلے میں سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں ابو صالح محمد عبدالعزیز میاں، روح الامین، ابو مسلم محمد علی، عبداللطیف، نجم الدین اور عبدالرحمن میاں شامل ہیں۔ ان میں سے صرف عبداللطیف اس وقت جیل میں ہیں، جب کہ باقی مفرور ہیں۔ ان سب کو ایک ہی کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور ان پر الزامات ہیں لوٹ مار اور 13 افراد کے قتل کے۔ 28 جون 2016ء سے ان پر جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ سب جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی وہ اصل جرم ہے جن کی بنیاد پر ان پر یہ مقدمات قائم کیے گئے ہیں، جن میں گواہ، استغاثہ اور منصف سب ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور صفائی کے وکلا اور ان کے حق میں گواہوں کو پیش ہونے سے روکا گیا ہے… اللہ رحم کرے۔