سوشل میڈیا اور ہمارا کردار

962

مدیحہ مدثر کراچی
آج کی زندگی میں تیزی سے پھیلتا یہ سوشل میڈیا کا استعمال‘ خاص کر نئی نسل سوشل میڈیا کی دنیا میں گْم نظر آتی ہے بلکہ پوری زندگی سوشل میڈیا پر مبنی ہوچکی ہے۔ کھانا کھایا تو دکھایا‘ خریداری کی تو دکھائی‘ کہیں گئے تو سب سے پہلے اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے حج و عمرہ بھی کرنا ہو سب سے پہلے سوشل میڈیا پر بتایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے‘ کوئی خرابی نہیں‘ لیکن اپنی ذاتی زندگی کو لوگوں کے سامنے اس طرح کھول کر رکھ دینا بھی مناسب نہیں اور اس کام کے لیے ہم وقت کا ضیاع بھی بہت کرتے ہیں۔ پہلے کھانا پکا کر کھالیا جاتا تھا‘ اب گھنٹوں اس کی سجاوٹ پر لگا دیتے ہیں۔ چلیں کبھی کبھار تو صحیح‘ مگر روزانہ آپکا وقت ایک ہی چیز پر لگ جانا مناسب نہیں۔ پھر وہ بھی آج کے دور میں ‘ کہ جب سب وقت کی کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر کییجانے والے بے منطق مذاق اور بے مقصد باتیں‘ چلیں مذاق بھی زندگی میں ہوناچاہیے‘ ہنسنا مسکرانا بھی ضروری ہے لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ ایک خاص حدتک بہت زیادہ دیر صرف اسی میں لگے رہنا مناسب نہیں۔ وقت کا ضیاع ہے یہ بھی۔ اور سب سے بڑی خرابی جھوٹ جو کہ پورے سوشل میڈیا پر حاوی نظر آتا ہے۔ نہ خود جھوٹ بولیں نہ دوسروں کی کسی بات کو تصدیق کیے بغیر آگے شیئر کریں۔ جھوٹی بات میں آپکا چھوٹا سا حصہ بھی آپکوگناہ گار کرسکتا ہے۔ پھر بے حیائی جو عام ہوتی چلی جارہی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اور آپ اسکا حصہ کب بن جاتے ہیں ہمیں محسوس بھی نہیں ہوپاتا کیوں نہ ہم سوشل میڈیا کو اچھائی کی راہ میں استعمال کریں کیوں نہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے تبلیغ دین کریں۔ قرآن ہم سب ہی پڑھتے ہیں کیوں نہ جب ہم قرآن پڑھیں تو کوئی ایک آیت ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ شیئر کردیں۔ حدیث پڑھیں تو وہ حدیث صحیح حوالہ نمبر کے ساتھ شیئر کردیں۔ وہ سوشل میڈیا جہاں جھوٹ اور فریب عام ہے‘ ہم وہاں اللہ کا نور بھردیں۔ سچائی ہم عام کردیں۔ کیوں نہ ہم اس بے حیائی سے بھرے سوشل میڈیا کو حیا اور حجاب کی تعلیمات سے عام کردیں۔ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کھول کر سب کے سامنے رکھ دیں ۔ وہ سوشل میڈیا جو ہمارے بچوں کو دین سے دور لے جارہا ہے ہم اس سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بچوں کو دین سے قریب کردیں۔ جہاں روزانہ ہزاروں پوسٹ بے مقصد جھوٹ فریب پر مبنی ہمارے بچوں کے سامنے سے گزرتی ہیں‘ وہیں کچھ اچھی اصلاحی پوسٹ ہم ان کے سامنے پیش کردیں اور ہمارے میڈیا پر پیش ہونے والے ڈرامے کارٹون اور پروگرام جو بے حیائی عام کررہے ہیں اور غیر اسلامی مواد پیش کررہے ہیں۔ اسکا نعم البدل ہم سوشل میڈیا پر ایسے اچھے کارٹون اور اصلاحی کہانیاں بناکرڈالنا شروع کردیں کہ جس کے سبب ہمارے بچوں کو تفریح کا بھی موقع مل جائے اور ساتھ اس تفریح سے ان کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔ اسی طرح جہاں جھوٹ دیکھیں‘ وہیں سچ ہم عام کردیں۔ ہم کیوں دوسروں کو روکنے میں وقت کا ضیاع کریں۔ ہم خود اچھائی کو اتنا زیادہ پھیلادیں کے برائی اور شر اس میں چھپ جائے کیونکہ جھوٹ پر ہمیشہ سچ غالب آکر رہتا ہے۔ حیا بے حیائی کو مار دیتی ہے ایمانداری بے ایمانی کو شکست دیتی ہے۔ ہماری نسل ابھی ناسمجھ ہے کم علم ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں صحیح راہ دکھائی جائے اسلامی، اخلاقی تعلیم دی جائے اور ساتھ میں اپنے ملک سے محبت پیدا کرائی جائے کیونکہ کوئی قوم جب تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک ملک ترقی نہ کرے۔ ہمارے ملک کو محبت کرنے والے شہریوں کی ضرورت ہے اور جب شہری اس ملک سے محبت کریں گے تو ضرور اچھے حکمران بھی ملیں گے اور اس کام کے لیے بھی سوشل میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بس کرنا یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی موجودہ صورتحال سے اپنی اس نسل کو آگاہ رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پر معلوماتی رپورٹ ڈالنا شروع کردیں ملک کی تمام خوبیاں زیادہ سے زیادہ بتائی جائیں۔ ملک میں تبدیلی پیدا کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اچھے حکمران کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ اقبال کی شاعری زیادہ سے زیادہ عام کی جائے۔ بچوں میں اقبال کے اشعار پڑھنے کا شوق پیدا کیا جائے۔ ان شاء اللہ ہماری قوم کے لڑکے لڑکیاں ضرور اچھائی کی طرف آئیں گے اور ہمارے ساتھ مل کر ضرور کام کریں گے۔