’’عمّۃ النبی حضرت صفیہ ؓ بنت عبدالمطلب‘‘

467

ام ایمان
گزشتہ سے پیوستہ
مہاجرین کا اپنا بیان ہے کہ وہ وہاں اطمینان کے ساتھ رہتے تھے اور اپنے دین کے معاملے میں پورے امن سے تھے ۔ اور انہیں کسی قسم کی ذہنی یا جا جسمانی اذیت نہ دی جاتی تھی ۔
قریش نے دیکھا کہ وہ تو وہاں اطمینان سے رہ رہے ہیں تو انہوں نے ایک وفد بھیجا اور ساتھ ہی نجاشی کے لیے تحفے بھی بھیجے لیکن نجاشی نے ان کی بات نہ مانی اور انہیں واپس کر دیا ۔ یہ پہلا وفد تھا جو نجاشی کے پاس قریش کے لوگوں کی واپسی کے لیے حاضر ہوا تھا بعد میں ایک دوسرا وفد بھی بھیجا گیا تھا ۔ پہلے وفد کی واپسی کے بعد اسی سال رمضان میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس کی خبر حبشہ کے مہاجرین کے پاس کچھ اس طرح پہنچی کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے ہیں ۔
وہ واقعہ کچھ یوں تھا کہ حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ وہ کعبہ کے پاس لوگوں کو دعوت حق دعوت دیتے رہتے تھے ایک دن حرم پاک کے پاس لوگوں کا ایک بڑامجمع اکٹھا تھا ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے موقع دیکھ کر لوگوں کو دین کی دعوت دی اور اللہ نے سورہ نجم کی آیات آپ ﷺ کی زبان مبارک سے قریش کو سنوائیں ۔ شدت تاثیر کے باعث تمام لوگ جن میں قریش کے بڑے بڑے سردار شامل تھے دم بخود سننے لگے انہیں کسی قسم کا کوئی ہوش نہ رہا اور قرآن کی تاثیر نے ان کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا چنانچہ آیات کے اختتام پر جب آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو آپ ﷺ کے ساتھ سارے کے سارے حاضرین سجدے میں گر گئے ۔
یہ واقعہ حبشہ کے مہاجرین کے پاس اس خبر کی صورت میں پہنچا کہ مشرکین قریش اسلام لے آئے ہیں ۔ مہاجرین قریش نے اس خوش خبری کے بعد مکہ واپسی کی ٹھانی ۔ واپسی کے سفر میں مکہ کے قریب انہیں بنو کنانہ کا ایک شخص ملا جس سے انہوں نے قریش کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ
’’ لوگ تو پہلے کی طرح اب بھی ان سے اسی طرح سختی سے پیش آ رہے ہیں اور ہم نے مکہ میں اسی حال میں ان کو چھوڑا ہے ‘‘
یہ سن کر تمام مہاجرین نے آپس میں مشورہ کیا کہ ’’ کیا کرنا چاہیے؟‘‘ پھر فیصلہ کیا کہ مکہ میں داخل ہو جانا چاہیے چنانچہ ہر ایک کسی نہ کسی کی پناہ لے کر شہر میں داخل ہو گیا ۔ ان میں حضرت صفیہ ؓ کے لخت جگر حضرت زبیر ؓ بھی تھے ۔ حضرت زبیر کے یوں اچانک آ جانے سے حضرت صفیہ ؓخوش ہوئیں۔ مکہ میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد حضرت زبیر ؓ نے ’’تجارت‘‘ کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کیا اور تجارتی قافلوں کے ساتھ سفر پر جانے لگے ۔
اب ماں کو بیٹے کی شادی کا ارمان ہوا چنانچہ حضرت صفیہ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی حضرت اسماء ؓ بنت ابوبکرؓ کو بہو بنانے کا ارادہ کیا اور یوں وہ صدیق اکبر کی سمدھن بن گئیں ۔
قریش کے مظالم دن بدن بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ آپ ؓ نے مسلمانوں کو حبشہ کے بعد مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی تھی ۔
دشمنان دین پر مسلمانوں کی ہجرت کے باعث شدید ترین جھنجھلاہٹ سوار تھی جس کے باعث رسول اللہ پر ان کے مظالم اور دست درازیاں بڑھ گئی تھیں ۔ (جاری ہے)
ایک دفعہ آپ ﷺ کعبہ کے صحن میں نماز ادا کر رہے تھے کہ یکایک عقب بن ابی معیط آگے بڑھا اور اس نے آپ ﷺ کی گردن میں کپڑا ڈال کر بل دینا شروع کیا تاکہ آپ ﷺ کو گلا گھونٹ کر مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ پہنچ گئے اور انہوں نے اس کو دھکا دے کر ہٹایا اور اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ ’’ کیا تم ایک شخص کو صرف اس قصور میں مار ڈالتے ہو کہ و کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟‘‘
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین نے حضور اکرم ﷺ کی ڈاڑھی اور سر کے بال نوچ ڈالے اور کافی بال اکھڑ گئے ۔ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کی حمایت میں اٹھے وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ’’ کیا تم ایک شخص کو محض اس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ‘‘
اسی زمانے میں ایک روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس کے باعث حضرت صفیہ کے بھائی اور حضور اکرم ﷺ کے چچا اسلام میں داخل ہو گئے ۔
واقعہ کے مطابق ایک مرتبہ رسول اللہ کوہ صفاء کے پاس بیٹھے تھے کہ ابو جہل نے آپ ﷺ کو بہت گالیاں دیں او دین اسلام کے لیے بہت برے الفاظ استعمال کیے مگر آپ ﷺ نے اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا ۔
یہ واقعہ ابن اسحاق کے مطابق ایک لونڈی نے حضرت حمزہ ؓ تک پہنچا دیا ۔ حضرت حمزہ ؓ قریش کے بہادر اور طاقت ور نوجوان تھے وہ حضور اکرم ﷺ کے چچا بھی تھے ۔ اور دودھ شریک بھائی بھی تھے اور خالہ زاد بھائی بھی تھے کہ آپ ؓ کی والدہ رسول اللہ کی والدہ کی چچا زاد بہن تھیں اور ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ ؓ نے آپ ﷺ دونوں کو دودھ پلایا تھا ۔
حضرت حمزہ ؓ اسی وقت شکار سے واپس آئے تھے ہاتھ میں کمان تھی یہ قصہ سن کر غصے میں بھرے ہوئے حرم پہنچے وہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا جاتے ہی اس زور سے کمان اس کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا پھر اس سے کہا۔
’’ تو ان کو گالیاں دیتا ہے میں بھی انہی کے دین پر ہوں اور وہ ہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں تجھ میں ہمت ہے تو وہ ہی گالیاں ذرا مجھے دے کر دیکھ‘‘ (جاری ہے)
اس پر نبی مخزوم کے کچھ لوگ ابو جہل کی حمایت میں اٹھے مگر اس نے ان سے کہا ‘‘
ابو عمارہ کو چھوڑ دو میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو گالیاں دیں تھیں ۔
در اصل ابو جہل کو خدشہ پیدا ہوا کہ اس طرح بنومخزوم اور بنو ہاشم کے درمیان انتقام در انتقام کی ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو کسی کے بجھائے نہ بجھے گی چنانچہ اس نے مخزومیوں سے کہا کہ حضرت حمزہ سے کوئی تعرص نہ کریں ۔
حضرت حمزہ نے جوش حمیت میں اسلام کا اعلان تو کر دیا لیکن جب گھر پہنچے تو دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ ’’میں قریش کا سردار ہوتے ہوئے اپنے دین کو چھوڑ کر نیا دین قبول کر لیا اور اپنے آبائی دین سے پھر گیا یہ بڑی شرم کی بات ہے اس سے تو مر جانا اچھا ہے ‘‘۔
ایک دوسری روایت کے مطابق ابو جہل کو زخمی کر دینے کے بعد حضرت حمزہ ؓ اپنے بھتیجے کے پاس گئے اور کہنے لگے ’’برادر زادے ! تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ میں نے ابو جہل سے تمہارا بدلہ لے لیا ہے ‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا
’’ چچا جان میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوتا ، میری خوشی تو اس میں ہے کہ آپ غیر اللہ سے تعلق توڑ کر دین حق کی پیروی کریں ۔
حضور اکرم ﷺ کی دعوت حق کے بعد وہ سخت ذہنی الجھن میں گرفتار ہو گئے اور اسی حالت میں گھر واپس آئے اور اللہ سے دعا کی
’’خدایا! اگر یہ صحیح راستہ ہے تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے ۔ ورنہ میرے لیے اس سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا فرما دے‘‘
رات شیطانی وسوسہ کے باعث سخت بے چین رہے جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ذہنی الجھن کا حال بیان کیا ۔
حضور اکرم نے نہایت محبت سے بلیغ انداز میں اسلام کی حقانیت سمجھائی اللہ کا خوف دلایا اور قبول حق کے صلے میں جنت کی بشارت دی ۔ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات سن کر حضرت حمزہ کا دل یقین اور ایمان کے نور سے معمور ہو گیااور بے ساختہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے ۔
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صادق و امین ہیں آپ اپنے دین کا خوب اظہار کیجیے ، وللہ مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ میرے اوپر آسمان سایہ فگن ہو اور میں اپنے پہلے دین پر قائم رہوں‘‘۔
قبول اسلام کے بعد حضرت حمزہ ؓ کا بیشتر وقت دار ارقم میں صحبت رسول میں گزرنے لگا یوں اللہ نے حضرت حمزہ کے ذریعے اسلام کو طاقت عطا فرمائی ۔
حضور اکرم ﷺ کی ہجرت کے وقت حضرت زبیر ؓ تجارت کے سلسلے میں شام گئے ہوئے تھے جب وہ شام سے مکہ واپس آ رہے تھے تو راستے میں سرور عالم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ صدیق سے ملاقات ہوئی رسول اللہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے جا رہے تھے حضرت زبیر ؓ نے حضور اکرم ﷺ اور اپنے خسر حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خدمت میں چند سفید کپڑے تحفتاً پیش کیے اور وہ یہ ہی سفید کپڑے پہن کر مدینے میں داخل ہوئے ۔
مکے واپس آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت زبیر ؓ نے اپنی والدہ حضرت صفیہ اور اہلیہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کے ہمراہ مدینے کی طرف ہجرت کی پہلے کچھ مدت قباء میں قیام پذیر رہے ۔
دہن سن1ھ اور کچھ روایات کے مطابق سن2ھ میں حضرت اسماء ؓ کے بطن سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہوئے حضرت صفیہ ؓ کے یہ پوتے تاریخ اسلام کے لیے نوید مبارک ثابت ہوئے ۔ کیونکہ ان کے ولادت سے کچھ پہلے سے کسی مہاجر کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اور یہود مدینہ نے مشہور کر دیا تھا کہ مسلمانوں پر ہم نے جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسل منقطع کردیا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پیدا ہوئے تو مسلمانوں نے جوش مسرت میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے جس سے مدینے کے منافقوں کے دل سہم کر رہ گئے ۔
حضرت صفیہ مدینے میں حضرت زبیر ؓ کے ساتھ ہی رہتی تھیں اور وہ ان کی دل و جان سے خدمت میں کمر بستہ رہتے تھے ۔
حضرت صفیہ ؓ بہادر بھائی کی بہن اور ایک نہایت بہادر بیٹے کی ماں تھیں ۔ اسلام کا سب سے پہلا علم حضرت حمزہ ؓ کو عطا کیا گیا تھا ۔ جب رمضان سن ۱ ہجری میں رسول اللہ نے تیس سواروں کے ساتھ حضرت حمزہ کو امیر بنا کر ساحلی علاقے کی طرف روانہ کیا تھا ۔
غزوہ بدر سے پہلے پیش آنے والے تینوں غزوئوں میں حضور اکرم نے حضرت حمزہ کو ہی علمبردار بنایا
رمضان ۲ ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا جس میں حضرت حمزہ پورے جوش و خروش سے شریک ہوئے ۔ حضرت زبیر بن عوام نے بھی معرکہ بدر میں استقامت اور بے جگری کے ساتھ داد شجاعت دی کئی موقعوں پر خود رسول اللہ نے ان کی شجاعت اور جذبہ کی تعریف کی اور برکلا تعریف تحسین فرمائی ۔
شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ ؓ انہیں’’اشجع العرب‘‘ کہا کرتے تھے جنگ بدر میں حضرت زبیر ؓ اور حضرت حمزہ ؓ دونوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن عش عش کر اٹھے ۔
حضرت حمزہ بدر کے میدان میں اس شان کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ دستار پر شتر مرغ کی کلفی لگائی ہوئی تھی وہ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتے تھے جدھر کا رخ کرتے صفیں کی صفیں الٹ جاتیں ۔
حضرت زبیر بدر میں زرد رنگ کا عمامہ باندھے شمشیر زنی کے جوہر دکھا رہے تھے وہ دشمنوں کی صفوں میں جدھر پڑتے وہیں دشمن کا دل بدل کائی کی طرح جھٹ جاتا ۔ حضور اکرم ﷺ کی نظر ان پر پڑی تو فرمایا
’’ آج مسلمانوں کی مدد کے لیے ملائکہ بھی زرد عمامہ باندھ کر آسمان سے اترے ہیں‘‘
حضرت اسماء بنت ابو بکر سے روایت ہے کہ عین ہنگامکہ کار زار میں ایک جنگجو مشرک ایک بلند ٹیلے پر چڑھ کر للکارا
’’ کوئی ہے جو میرے مقابلے پر آئے‘‘
سرور عالم نے حضرت زبیر ؓ کو دیکھا جو جوش غصب سے کسمسا رہے تھے حضور ﷺ نے فرمایا’’ اے ابن صفیہ! کھڑے ہو جائو اور اس مشرک کے مقابلے پر جائو‘‘۔
سرور عالم حضرت صفیہ ؓ سے قرب اور تعلق کے باعث اکثر ان کے فرزند کو’’ابن صفیہؓ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔
حضرت زبیر ؓ اس موقع پر رسول اللہ کی پکار پر تیر کی طرح جھپٹے اور اس سے گتھم گتھا ہو گئے وہ دونوں ہیہ شہہ زور تھے ایک دوسرے کو ٹیلے سے نیچے گرانے کی کوششیں کر رہے تھے ۔
حضور ﷺ نے فرمایا’’ ان دونوںمیں سے جوپہلے گرے گا وہ مارا جائے گا ‘‘
پھر آپ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کے حق میں دعا فرمائی چند ہی لمحے بعد دونوں ٹیلے سے لڑھکتے ہوئے نیچے اس طرح گرے کہ مشرک نیچے اور حضرت زبیر اس کے اوپر پھر پلک جھپکنے کی دیر تھی حضرت زبیر ؓ نے اپنی تلوار سے مشرک کی گردن اڑا دی ۔
اس کے بعد حضرت زبیر ؓ کا مقابلہ قریش کے نامی گرامی بہادر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہوا ۔
اس کی حالت یہ تھی کہ سرتاپہ لوہے میں غرق تھا صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں اس کی کنیت ابو زات الکرش تھی اس نے للکار کر کہا
میں ہوں ابو ذات الکرش
حضرت زبیر نے تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری اوراور وہ مر گیا ۔ حضرت زبیر ؓ نے اس کے مرنے کے بعد بڑی مشکل سے لاش پر پائوںرکھ کر زور لگا کر برچھی واپس نکالی تو برچھی کا پھل مڑ چکا تھا ۔
سرور کائنات نے یہ برچھی حضرت زبیر ؓ سے مانگ لی اور وفات تک وہ آپ ﷺ کے پاس رہی ۔ حضرت زبیر ؓ کی وہ تلوار جو بدر کے میدان میں بجلی بن بن کر دشمن پر چمکی تھی وہ بھی یاد گار بن گئی تھی کہ شدت استعمال سے اس میں دندانے پڑ گئے تھے ۔
جنگ احد میں جب مسلمانوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی تو حضرت زبیر ؓ ان چودہ ثابت قدم صحابہ اکرام میں تھے جو شروع سے آخیر تک رسول اللہ کے ساتھ تھے اور ایک لمحہ کو بھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی تھی ۔
جنگ احد میںمشرکین کا علمبردر طلحہ بن ابی طلحہ تھا اس نے میدان میں آ کر مسلمانوں کو دعوت مباذرت دی تو حضرت زبیر ؓ دوڑتے ہوئے اس کی طرف گئے اور جست لگا کر اس کے اونٹ پر سوار ہو گئے پھر اس کو دھکیل کر نیچے گرایا اور اپنی تلوار سے ذبح کر دیا ۔
رسول اللہ نے اس موقع پر حضرت زبیر ؓ کی یوں تحسین کی کہ ’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ؓ ہے اگر زبیر ؓ اس کے مقابلے کے لیے نہ نکلتا تو میں خود اس کے مقابلے کے لیے جاتا‘‘
بہادر اور شجاع بیٹے کی تربیت کرنے والی حضرت صفیہ ؓ خود بھی بہادری ور صبر و ضبط کا پہاڑ تھیں ۔ جنگ بدر میں حضرت حمزہ ؓ نے بڑے بڑے سرداران قریش کو قتل کیا تھا لہٰذا یہ آرزو یوں تو تمام ہی مشرکین کے دل میں پل رہی تھی کہ کسی طرح ان سے بدلہ لیا جائے لیکن … …… نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا انتقام لینے کے لیے اپنے ایک غلام وحشی کو مامور کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو اس کو آزاد کر دیا جائے گا ۔
چنانچہ وحشی تاک لگائے اس انتظار میں تھا کہ کب اس کو موقع ملتا ہے ۔ حضرت حمزہ ؓ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتے ہوئے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ یکا یک ان کا پائوں پھسلا اور وہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے اسی وقت وحشی نے تاک کر اپنا بھالا مارا جوناف سے آر پار ہو گیا حضرت حمزہ ؓ اس قدر شدید زخم کھانے کے باجود اٹھے لیکن پھر لڑ کھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی ۔
مشرکین کو حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کی اس قدر خوشی ہوئی کہ ان کی عورتوں نے ترانے گا کر اس کا اظہار کیا ۔ ہندہ بنت عتبہ نے اپنے دل کی بھڑاس یوں نکالی کہ حضرت حمزہ کی نعش مبارک سے ہونٹ ناک کان کاٹ لیے اور شکم چاک کر کے جگر نکال ڈالا اور اسے چبا چبا کر نگلنے کی کوشش کی مگر نگل نہ سکی اور تھوک دیا ۔
ہندہ کی اس وحشیانہ حرکت کا علم رسول اللہ کو ہوا تو آپ ﷺ سخت غمزدہ ہوئے پھر پوچھا کہ ’’ کیا اس نے حمزہؓ کے جگر میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟
لوگوں نے عرض کیا’’نہیں‘‘
آپ ﷺ نے دعا کی ’’ الٰہی حمزہ کے کسی حصہ جسم کو جہنم میں داخل نہ ہونے دیجیے گا۔‘‘
جنگ کے خاتمے پر آپ ﷺ اپنے چچا کی مثلہ کی ہوئی لاش کے پاس آئے اور شدت غم و الم سے بیقرار ہو گئے فرمایا ۔
’’تم پر خدا کی رحمت ہو کیوں کہ تم اعزا اور اقربا کا سب سے زیادہ خیال کرتے تھے اور نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے اگر مجھے صفیہ کے رنج و الم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہاری لاش اسی طرح چھوڑ دیتا تاکہ اسے درندے اور پرندے کھا جائیں اور تم قیامت کے دن انہی کے پیٹ سے اٹھائے جائو‘‘
اسی موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ مجھے جبریل امین نے بشارت دی ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب ساتوں آسمانوں پر اسد اللہ اور اسد الرسول لکھے گئے ہیں ۔
ادھر حضرت صفیہ ؓ کو اس بات کی اطلاع ہوئی کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا ہے اور مسلمان منتشر ہو گئے ہیں تو وہ ایک نیزہ ہاتھ میں لے کر نکلیں اور جو مسلمان جنگ سے منہ موڑ کر مدینے کی طرف آ رہے تھے ان کو شرم اور غیرت دلاتی تھیں اور نہایت غصے میں فرماتی تھیں ۔
’’ تم رسول اللہ کو چھوڑ کر چل دیے؟‘‘
راہ چلتے چلتے وہ میدان احد کے پاس آ گئیں ۔ رسول اللہ نے جب ان کو میدان جنگ کی طرف آتے دیکھا تو حضرت زبیر ؓ کو پاس بلا کر ارشاد فرمایا
’’دیکھو ! صفیہ اپنے بھائی حمزہ ؓ کی لاش دیکھنے نہ پائیں‘‘
رسول اللہ نہیں چاہتے تھے کہ بہن اپنے محبوب بھائی کی لاش کو اس حال میں دیکھے ۔ حضرت زبیر نے ماں کو رسول اللہ کے ارشاد سے مطلع کیا ۔ حضرت صفیہ ؓ اس کا سبب سمجھ گئی اور بولیں ۔
’’مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش بگاڑ دی گئی ہے خدا کی قسم مجھے پسند نہیں لیکن میں صبر کروں گی اور انشاء اللہ ضبط سے آہ و زاری نہیں کروں گی ۔‘‘
حضور ﷺ جب حضرت صفیہ ؓ کے جواب سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے حضرت صفیہ کو اپنے محبوب بھائی کی لاش دیکھنے کی اجازت دی ۔ حضرت صفیہ ضبط کے بند باندھے آنکھوں میں آنسوئوں کا سمندر لے بھائی کی لاش پر آئیں ۔ محبوب بھائی کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو گئیں ۔ پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور تدفین کے لیے دو چادریں رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیں اور واپس مدینہ چلی گئیں ۔
بھائی کی وفات پر حضرت صفیہ نے ایک پردرد مرثیہ کہا جس کے ایک شعر میں رسول اللہ کو مخاطب کر کے کہا
’’ آج آپ پر وہ دن آیا ہے کہ آفتاب سیاہ ہو گیا ہے ۔
حالانکہ اس سے پہلے وہ روشن تھا ‘‘
حضرت ابن مسعود کا بیان ہے کہ رسول اللہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب پرجس طرح روئے اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا آپ ﷺ نے انہیں قبلے کی طرف رکھا پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہو گئی ۔
در حقیقت شہیدائیت احد اور خاص طور سے حضرت حمزہ ؓ سے آپ ﷺ کا تعلق اور محبت اور پھر ان شہداء کی شہادت کا منظر بڑا ہی دلدوز اور زہرہ گداز تھا
حضرت جناب ؓ بن ارث کا بیان ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے لیے ایک سیاہ دھاری دار چادر کے سوا کچھ نہ تھا اگرچہ ان کی بہن اپنے بیٹے زبیر ؓ کو دو چادریں دے گئیں تھیں کہ ان میں اپنے ماموں کو کفنانا لیکن وہیں ایک دوسرے شہید انصاری کی لاش بھی پڑی تھی ۔ حضرت زبیر ؓ نے دونوں شہیدوں میں ایک ایک چادر تقسیم کر دی ۔ ایک چادر حضرت حمزہ ؓ کے لیے کافی نہ تھی اگر سر چھپایا جاتا تو پائوں کھل جاتے اور پائوں چھپائے جاتے تو سر کے اوپر سے چادر ہٹ جاتی آخر رسول اللہ نے فرمایا کہ چہرہ اور سر چادر سے ڈھانپ دو اور پائوں پر اذخر گھاس ڈال دو
اس طرح عم رسول کا جنازہ تیار ہوا تو صحابہ اکرام رونے لگے ، حضور ﷺ نے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو ۔ عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آج ہم کو یہ توفیق بھی نہیں کہ آپ ﷺ کے چچا کا سارا بدن کپڑے سے ڈھانپ سکیں ۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ ( مسلمان) ایسے مقامات پر معترف ہوں گے جہاں کھانے پینے ، اوڑھنے کی چیزوں اور سواریوں کی بہتات ہو گی اور وہاں سے وہ اپنے اہل و عیال کو مدینہ سے اپنے پاس آنے کے لیے لکھیں گے ‘‘۔
جنگ احد کے شہیدوں میں سب سے پہلے آپ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی نمازجنازہ پڑھائی اور پھر ایک ایک کر کے شہدائے احد کے جنازے حضرت حمزہ ؓ کے پہلو میں رکھے جاتے رہے اور آپ نے ہر ایک پر الگ الگ نماز پڑھائی اس طرح اس دن حضرت حمزہ پر ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی اس فضیلت میں اور کوئی حضرت حمزہ ؓ کا شریک نہیں ہے نماز جنازہ کے بعد حضرت حمزہ ؓ کو ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن حجش کے ساتھ ایک ہی قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب اصحابہ میں لکھا ہے کہ سینتیس سال کے بعد 40 ھ میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے حکم سے احد کے اطراف سے نہر نکالی گئی تو کھدائی کے دوران کئی شہداء کی لاشیں بالکل ترو تازہ حالت میں ملیں اسی سلسلے میں حضرت حمزہ ؓ کے پائوں میں بیلچہ لگ گیا تو ان کے پائوں سے خون کی چھینٹیں اس طرح اڑیں جیسے زندہ آمی کے زخم لگنے سے خون نکلتا ہے ۔ سن5 ہجری میں جنگ احزاب میں سارے عرب نے متحد ہو کر مشرکین اور یہود کے ساتھ مدینہ کا رخ کیا دوسری طرف مدینہ کے اندر بنو قریطہ الگ مسلمانوں کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چکے تھے ۔ لیکن اللہ کے رسول کی راہ نمائی میں تمام مسلمان عزم و ہمت کے پیکر بنے ہوئے تھے اور انہوں نے آخری جان اور آخری سانس تک مقابلے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو احتیاط کے خیال سے انصار کے ایک قلعے میں منتقل کر دیا تھا اور شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت کو ان کی نگرانی پر مامور کیا تھا ۔
اگر قلعہ مضبوط تھا لیکن خطرہ اس بات کا تھا کہ کہیں یہودی مسلمانوں کو میدان جنگ میںمصروف پا کر پیچھے عورتوں اور بچوں پر حملہ نہ کر دیں ۔یہودی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ قلعہ یا قلعہ اور یہودیوں کے درمیان کوئی فوجی دستہ موجود ہے یا نہیں ۔ ان ہی دنوں میں ایک یہودی سن گن لینے کے لیے اس طرف آ نکلا حضرت صفیہ ؓ کی نظر اس پر پڑ گئی ۔
آپ سمجھ گئیں کہ یہ ضرور جاسوس ہے اور سن گن لینے ادھر آیا ہے انہوں نے قلعے کے نگران حضرت حسان ؓ بن ثابت سے کہا اے حسان ؓ! یہ یہودی جیسا کہ آپ ؓ دیکھ رہے ہیں ۔ قلعے کے چکر لگا رہا ہے ۔ اور مجھے خدا کی قسم اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہودیوں کو بھی ہماری کمزوری سے آگاہ کر دے گا اور ادھر رسول اللہ اور صحابہ اکرام اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری مدد کو نہیں آ سکتے لہٰذا آپ جایے اور اس یہودی جاسوس کو قتل کر دیجئے ‘‘
حضرت حسان ؓ نے کہا
’’ وللہ آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں ہوں‘‘۔
حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ اب میں نے خود اپنی کمر باندھی پھر ستون کی ایک لکڑی لی اور اس کے بعد قلعے سے اتر کر اس یہودی کے پاس پہنچی اور لکڑی سے مار مار کر اس کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان ؓ سے کہا جایے اس کے ہتھیار اور اسباب اتار لیجیے چونکہ وہ مرد ہے لہٰذا میں نے اس کے ہتھیار نہیں اتارے حسان ؓ نے کہا’’ مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔
انہوں نے حضرت حسان ؓ سے یہودی کا سر کاٹ کر قلعے سے نیچے پھینکنے کے لیے کہا تاکہ یہودی بنو قریطہ کو کٹا ہوا سر دیکھ کر یقین ہو جائے کہ قلعے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے ۔
انہوں نے اس میں بھی عذر کیا چنانچہ اس بہادر خاتون نے خود ہی سر کاٹ کر قلعے کے نیچے پھینک دیا ۔
بنو قریطہ اس یہودی کا حشر دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے اور انہیں قلعے میں حملہ کرنے کی ہمت نہ پڑی ۔ یوں حضرت صفیہ کی اس دلیرانہ اقدام نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو یہودیوں کے پنجہ ستم سے بچا لیا ۔
غزوہ احزاب کے وقت حضرت صفیہ ؓ کی عمر اٹھاون برس کے لگ بھگ تھی لیکن ہمت اور حوصلہ میں آپ نے جوانوں کومات کر دیا تھا ۔ ادھر بنو قریطہ کی بد عہدی کی اطلاع جب رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ پر شدید مایوسی طاری ہوئی آپ ﷺ نے اپنا سر اور چہرہ کپڑے سے ڈھانک لیا اور دیر تک چت لیٹے رہے اس کیفیت میں آپ ﷺ کو دیکھ کر لوگوں کا اضطراب اور بڑھ گیا ۔
پھر آپ ﷺ پر امید چہرہ لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا
’’ مسلمانوں! اللہ کی مدد اور فتح کی خوش خبری سن لو‘‘
اس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ کی نگرانی اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے کسی کو بھیجنے کا ارادہ کیا آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ۔
’’ کون بنو قریطہ کی خبر لاتا ہے؟‘‘
حضرت صفیہ ؓ کے لاڈلے حضرت زبیر ؓ نے بڑھ کر عرض کی ۔
’’ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں‘‘
سرور عالم نے تین مرتبہ اپنے الفاظ دہرائے اور تینوں مرتبہ حضرت زبیر ؓ نے اپنے آپ کو اس پر خطر کام کے لیے پیش کیا حضور ان کے جذبہ فدویت سے بہت خوش ہوئے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اسی موقع پر الفاظ ارشاد فرمائے ۔
’’ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا خواری زبیر ؓ ہے ‘‘
صحیح بخاری میں حضرت زبیر ؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے ایک روایت نقل ہے کہ غزوہ احزاب میں عمرو بن ابی سلمہ اور زبیر بن عوام کو عورتوں کے ساتھ کر دیا گیا تھا ۔ میں نے انہیں دو تین دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر بنو قریطہ کی طرف جاتے دیکھ جب شام کو میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ’’ ابا جان میں نے آپ کو (بنی قریطہ) کی طرف جاتے دیکھا تھا حضرت زبیر ؓ نے فرمایا’’ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟‘‘
میں نے کہا’’ہاں‘‘ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کون بنو قریطہ کی خبر لاتا ہے؟
میں گیا اور واپس آیا تو حضور ﷺ نے میرے لیے اپنے ماں باپ جمع کیے اور فرمایا
فداک ابی و امتی( میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں)
یہ الفاظ زبان رسالت سے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے نہیں نکلے ۔ حضرت صفیہ کو اپنے اس با سعادت فرزند پر بے حد فخر تھا ار یقیناً یہ بات باعثِ فخر تھی ۔
حضرت صفیہ انتہائی زیرک ، دور اندیش ، بہادر ، اور صابر خاتون تھیں اللہ نے انہیں فہم سخن سے بھی نوازا تھا ۔ سیرت کی بعض کتابوں میں ان کے کہے ہوئے چند مرثیے ملتے ہیں ۔ جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت فصیح و بلیغ تھیھں ۔
سن11ھ میں جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو حضرت صفیہ ؓ پر کوہ الم ٹوٹ پڑا انہوں نے اس موقع پر نہایت درد ناک مرثیے کہے آپ کے چند اشعار یہ ہیں
یا رسول اللہ آپ ہماری امید تھے
آپ ﷺ ہمارے محسن تھے ظالم نہ تھے
آپ ﷺ رحیم تھے ہدایت دینے الے اور تعلیم دینے الے تھے
آج ہر رونے والے کو آپ ﷺ پر رونا چاہیے
ایک اور مرثیہ کا مطلع ہے
اے آنکھ رسول اللہ کی وفات پر خوب آنسو بہا
حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ کی وفات کے بعد چند سال ہی زندہ رہیں ان کا انتقال حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر 73سال تھی جنت البقیع میں انہیں دفنایا گیا ۔