تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا‘ کامیابی صرف سرمایہ دار کے لیے مخصوص ہے‘ صفوریٰ نعیم

2149

پاکستان میں نظام تعلیم کی بنیاد مادہ پرستی بن چکی ہے‘ جہاں انسان نہیں‘ معاشی حیوان تیار کیے جاتے ہیں

ابتدائی تعلیم میں بچوں کی لکھائی سے زیادہ پڑھائی پر توجہ دینی چاہیے‘ معیاری کتب اور تربیت یافتہ اساتذہ سے بہترین معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے

اسکول کا انتخاب نصاب دیکھ کر کرنا چاہیے‘ ERI اور دی انسپریشن اسکول کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر صفورہ نعیم کی باتیں

گفتگو:غزالہ عزیز
میرا نام صفوریٰ نعیم ہے میں نےM.Sc.،M.Phil کیا ہے ۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد میں امریکا چلی گئی وہاں میں نے ٹیچر ٹریننگ حاصل کی۔ وطن واپس آ کر تعلیم کے شعبے سے منسلک ہو گئی ۔1993ء میں مجھے عثمان پبلک اسکول سسٹم کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ۔ الحمد للہ عثمان پبلک اسکول سسٹم میں24سے25 سال تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد2016ء میں ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئی ۔ اس دوران مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کے حوالے سے دو چیزوں کی بہت کمی ہے ایک مارکیٹ میںمعیاری کتب ،دوسرا تجربہ کار اساتذہ۔ لہٰذا ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے1995ء میں ایک ایجو کیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جہاں تعلیم کے حوالے سے ٹیچرز کی تربیت ہو سکے ۔ اس ادارے میں میرا تقرر ڈائریکٹر ٹریننگ ہوا اور20سال کی انتھک کاوش کے نتیجے میں اس ادرے سے تقریباً50,000 اساتذہ فارغ التحصیل ہو کر مختلف اداروںمیں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ الحمد للہ آج ایجو کیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹERI ٹیچرز ٹریننگ کے ساتھ نہ صرف معیاری کتب فراہم کر رہا ہے بلکہ اپنے فرنچائز اسکولوں کا بھی آغاز کرچکا ہے ۔ گزشتہ دو برس سے میں ایجو کیشنل انسٹیٹیوٹ کے علاوہ دی انسپریشن اسکول میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہی ہوں ۔

سوال: پاکستان میں تعلیم کی صورت حال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا امید کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے؟
جواب۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کا جائزہ جس زاویے سے بھی لیا جائے اس میں تشویش کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں سب سے پہلی بات جو خرابی کی بنیادی جڑ ہے وہ دین کی تفریق کی بنیاد پر استوار دو متوازی نظام جو دو مکمل متضاد انداز میں تعلیم یافتہ افراد کو تیار کر رہے ہیں ۔ ایک طرف اسکول اور کالج کا نظام ہے اور دوسری طرف مدارس کا نظام ہے ، مدارس نے جو کردار انگریز کے دور میں ادا کیا وہ انتہائی قابل قدر ہے ۔ آج برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اپنی اسلامی شناخت اور اسلامی ورثہ کے لیے انہی کی مرہون منت ہیں ، لیکن آج کے دور میں یہ دونوں نظام جو افراد معاشرہ کو مہیا کر رہے ہیں وہ دونوں ہی معاشرے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے قابل نہیں ۔
اسکول اور کالج کی تعلیم کی سب سے بڑی بنیاد مادہ پرستی ہے جو انسانوں کے بجائے معاشی حیوان تیار کر رہی ہے ۔ انسان کو انسان ہونے کے ناطے اپنے مقصد کا شعور اور آگہی اور مقصد کے حصول کی لگن کے بجائے یہ تعلیم بس شکم پروری اور بندگی نفس کا ایک پروانہ دے کر میدان میں اتار دیتی ہے ۔ اخلاقیات سے مکمل آزاد یہ تعلیم شروع ہی سے کامیابی و ناکامی کا ایسا درس دیتی ہے کہ جس کے اثرات معاشرے میں ہمیں عام نظر آتے ہیں ۔
دوسری بڑی خرابی تعلیم پر دولت مندوں کی اجارہ داری ہے ملک کی95 فیصد آبادی تعلیم سے اسی وجہ سے محروم ہے ۔ اگرچہ کسی ملک کے باشندوں کے بنیادی حقوق میں ان کی تعلیم و صحت کی ذمہ دار اس ملک کی حکومت ہوتی ہے ، پاکستان میں حکومت نے اس ذمہ داری سے مکمل صرفِ نظر کر لیا ہے نتیجتاً پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کو بھی ایک ذریعہ تجارت بنا کر رکھ دیا ہے ۔ تعلیم جب تجارت ہی ٹھہری تو سب سے کامیاب وہی ہے جو زیادہ سے زیادہ سرمایہ رکھتا ہے ۔ اسکول بنانے والے جب لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے کماتے بھی کروڑوں ہیں اور اس سارے کاروبار کا فائدہ محض ہماریElite Class کو پہنچتا ہے ۔ دوسری طرف عام پرائیویٹ اسکولوںمیں تعلیم کے نام پر جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ نہ بچے کی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے نہ اس کی شخصیت ہی مجروح ہونے سے محفوظ ہوتی ہے ۔
پروفیسر خورشید صاحب اپنی کتاب’’نظام تعلیم‘‘ نظریہ، روایت ، مسائل ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ :
’’ کسی نظام تعلیم کی بہترین کسوٹی نمونے کے ایسے انسان ہوتے ہیں جو وہ پیدا کرتا ہے ۔ ہماری موجودہ تعلیم نہ صرف انسانوں میں زندگی کے مقاصد عالیہ کے لیے کوئی تڑپ پیدا نہ کر سکی، بلکہ اس نے فکری غلاموں ، ذہنی مجرموں ، دہریوں ، سیاسی ابن الوقتوں اور اپنی تہذیب کے غداروں کو جنم دیا ہے ۔ ( الا ما شاء اللہ)‘‘
آپ نے پوچھا ہے کہ امید کی کوئی کرن ہے؟ یقیناً نا امیدی گناہ ہے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دو رخ سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک اجتماعی اور ایک انفرادی ۔ اجتماعی کوشش کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اپنے مضبوط فورمز تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ پھر ان سب کے اشتراک سے حکومت پر اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے دبائو ڈالا جائے تاکہ موجودہ سرکاری اسکولوں ور کالجوں کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے کوئی مربوط لائحہ عمل بنایا جئے جتنی مضبوط یہ تحریک ہو گی اتنا ہی قومی سطح پر ہمارا فائدہ ہو سکتا ہے ۔
جب تک حکومت اپنا صحیح رول ادا نہیں کرتی ، پرائیویٹ سیکٹر کو ایسے اسکول کھولنے کی ضرورت ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام لازمی کریں ۔ تربیت کے لیے قرآن پاک میں کاص لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ ’’تزکیہ‘‘ کا ہے جب تک یہ عمل تعلیم کا بنیادی جزو نہ بنے ، تعلیم کا عمل وہ نتائج نہیں دے سکتا جو مطلوب ہیں ۔ س میں درسی کتب کو اسلامی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی بہت ضرورت ہے ، اساتذہ کی تدریسی مہارتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات کو اسلامی فکر میں ڈھالنے کے لیے ٹریننگ کی ضرورت ہے اور اس طرح کے ماڈل ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جس میں طلباء ایک اسلامی ماحول میں تعلیم و تحقیق کا کام کر رہے ہوں ۔ الحمد للہ محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن اس کام کی ابتداء ہو چکی ہے کئی ادارے اپنے تیئیں تجربات کر رہے ہیں ۔ اس امر کی بھی ہے کہ یہ ادارے ایک فورم کے تحت اپنے اپنے تجربات سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں ۔
سوال۔ خواتین کی تعلیم کیسے ، کتنی اور کون سی ہونی چاہیے؟ آپ کا اس حوالے سے کیا خیال ہے؟
جواب: در اصل ہمارا تصورِ تعلیم ہی سب سے پہلے مرحلے میں درست ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہر معاشرہ اپنی ضروریات کا تعین کرنے کے بعد افراد کی تیاری کے لیے ادارے قائم کرتا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی نقالی ہی کو تعلیم سمجھ بیٹھے ہیں اور بہت سے اداروں میں اپنی قوم کے وسائل بے دریغ ضائع کر رہے ہیں ۔ اسلام لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے ہرگز خلاف نہیں ہے لیکن تعلیم وہ جو با مقصد ہو اورمعاشرہ اور فرد دونوں کے لیے فائدہ مند ہو ہماری حکومت کو ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں یہ تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس معاشرے کے لیے کتنی اساتذہ ، کتنی ڈاکٹرز ، کتنی وکلاء ، ماہر نفسیات ور دیگر مخصوص شعبہ جات میں کتنی خواتین درکار ہیں اور اسی کے مطابق پھر پالیسی کے حساب سے ان کی مخصوص نشستوں کا تعین ہو ، یہ بات ہماری قومی سطح کے لیے ان خواتین کے لیے اہم ہے جو سوچ سمجھ کر کسی شعبے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں ۔
عام خواتین جو خاتون ہونے کے ناطے اپنی فطری رول سے مطمئن ہیں ان کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں میں کچھ گھریلو مہارتوں اور خواتین کی دلچسپی کے امور پر نصاب متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسکولوں میں تعلیم کا تعلق ان کی عملی زندگی سے ہو اور ساری کی ساری تعلیم بس ان Fact اور Figures کورٹنے پر مشتمل نہ ہو جو ان کی ملی زندگی میں کبھی بھی استعمال نہ ہو گی ۔
معاشرے کی ضرورت کے پیش نظر اسلام ایک بہت بڑی سہولت خواتین کو یہ دیتا ہے کہ وہ کچھ پیشوں کو جن میں خواتین کا ہونا ناگزیر ہے انہیں فرض، کفایہ قرار دیتا ہے یعنی ان کی دین میں اہمیت اتنی ہے کہ اگر انہیں کوئی بھی قابل توجہ نہ سمجھے اور معاشرے میں لوگ ایسی خواتین سے جو ان پیشوں سے منسلک ہیں معاونت نہ کریں تو سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا ۔ ( امام غزالی‘ احیاء العلوم : باب ۔ علم)
اس حوالے سے خواتین کے پاس یہ اختیار ے کہ وہ کسی پیشہ کو اختیار کر کے اپنی زندگی اس میں لگانا چاہیں تو یہ خدمت اللہ کے ہاں مقبول ہے اور اگر کوئی گھریلو خاتون با عزت پیشہ اختیار کرنا چاہے تو بھی اللہ کے ہاں اجر کا باعث ہے البتہ عورت کو اس دہری ذمہ داری کے لیے تیار کرنے کے لیے با قاعدہ نصاب سازی کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود رہے گی ۔
سوال:تعلیمی نصاب کیسا اور کس طرح کا ہونا چاہیے ۔ کیا خواتین کے لیے علیحدہ نصاب یا شعبہ مخصوص ہونا چاہیے؟
جواب اس سوال کے ضمن میں کچھ باتیں تو پہلے رقم ہو چکی ہیں ، در اصل اسلامی نکتہ نگاہ سے تعلیم وہی ہے جس کے ساتھ تربیت شامل ہو ۔ اس طرح کی تعلیم سے مراد نگاہ و فکر کی بلندی ، افکار و کردار کی نشوونما کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے بہت سے شعبہ جات کے حوالے سے تیاری ۔ ایسا ہمہ پہلو نصاب تیار کرنا اگرچہ ایک دشوار گزار کام لگتا ہے لیکن اگر ہم نصاب کے لفظ پر ہی غور کریں تو صورتحال بہت واضح ہو جاتی ہے ۔ نصاب در اصل ہر اس فکر ، عقیدہ یا مہارت کو کہتے ہیں جو طالب علم کسی ادارے سے سیکھتا ہے ۔ اس طرح نصاب در اصل درسی مضامین کے علاوہ ادارے کے ماحول ، اساتذہ کے کردر اور ان کے طریقہ تدریس کا مجموعی نام ہے ۔ اگر کسی ادارے میں ان تمام اجزا کو اسلام کے سانچے کے مطابق ڈھال کر طلباء کی تعلیم اور تربیت کا نظام وضع کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ ہم عام طور پر تدریسی کتب ہی کو نصاب سمجھ لیتے ہیں جب کہ ہر ادارے میں سریCovert اور جہری Overt دونوں نصاب کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ اسلامی تعلیم ادارے بھی اسی وقت کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں جب ان ونوں پہلوئوں کو ملحوظ رکھ کر اپنے اصول و ضوابط وضع کریں ۔ رہا سوال خواتین کے مخصوص نصاب کا تو یقیناً ان کی آئندہ زندگی کی تیاری کے لیے رسمی اور غیر رسمی دونوں نوعیت کے نصاب وضع کرنے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔
خواتین کے لیے یقیناً کچھ شعبہ جات یسے ہیں جنہیں فرض کفایہ کا درجہ دیا گیا ہے مثلاً تدریس کا شعبہ جن میں فطرتاً ہی خواتین بچوں کی تعلیم و تربت کے لیے زیادہ موزوں ہیں ۔ا سی طرح نفسیات ، طب و میڈیسن کا شعبہ جات ، نرسنگ میں خواتین کی دیکھ بھال کا شعبہ وغیرہ چند مثالیں ہیں ۔
سوال ۔ذریعہ تعلیم کے لیے کون سی زبان ہونی چاہیے؟ کیا ابتدائی کلاسوں ے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانا ٹھیک ہے؟ جرمنی اور جاپان جیسے ملکوں نے اپنی زبان کے ساتھ کیسے اس قدر تیزی سے ترقی کا سفر کیا؟
جواب: آج پاکستان کو بنے ہوئے 70 سال ہو چکے اور ہم ابھی تک قومی سطح پر یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ اپنے نو نہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کون سی زبان کو ذریعہ بنایا جائے ۔ پوری دنیا میں کامیاب قومیں وہی قرار دی گئی ہیں جو اپنی ہی قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنائے ہوئے ہیں ۔ جاپان ، چین ، کوریا ، جرمنی اور فرانس چند مثالیں ہمارے سامنے واضح طور پر اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں ۔ ان قوموں نے نہ صرف تحقیق کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ دوسری زبانوں کی کتب کے تراجم بھی اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کام ہمیشہ جاری رکھا ۔ جب کہ بد قسمتی سے پاکستان میں ان دونوں شعبوںکو نظر انداز کیا گیا ۔ نتیجتاً اردو زبان بھی بہت وسعت کے باوجود اب کچھ ٹھٹھری ٹھٹھری محسوس ہوتی ہے اور ہماری لائبریریاں اردو کے حوالے سے تنگ دامنی کا شکار نظر آتی ہیں ۔
ابتدائی تعلیم کے بارے میں مسلمہ طور پر تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ بچے جو کم از کم کلاسIII تک اپنی زبان میں تعلیم کا آغاز کرتے ہیں وہ نمایاں طور پر ان بچوں کی نسبت جو غیر ملکی زبان میں تعلیم پاتے ہیں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں ان میں سوچ بچار ، جستجو اور فہم کی سطح دوسرے بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔ پاکستان میں یہ تجربات جب بھی کیے گئے عام طو پر عوام الناس میں انگریزی سے ذہنی مرعوبیت کی وجہ سے پذیرائی سے محروم رہے ، چنانچہ کسی پرائیویٹ اسکول کو اگر کامیاب ہونا ہے تو اسے انگریزی میڈیم کا لیبل اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے اس میں پھر بہترین راستہ یہی نظر آتا ہے کہ انگریزی سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اردو بہترین سکھائی جائے تاکہ ان کی صلاحیتیں متاثر نہ ہوں اور اپنی تہذیب سے ان کا ناطہ جڑا رہے ۔
سوال۔ تعلیمی انقلاب کے لیے کیا اقدامات کرنا لازم ہیں؟
جواب: تعلیمی انقلاب کے لیے میں کچھ تجاویز پہلے بھی دے چکی ہوں ۔ یہاںمزید وضاحت کر دیتی ہوں ۔ سب سے پہلے علوم کی دینی اور دنیاوی تفریق ختم کر کے ان کی اسلامی تقسیم کو رواج دیا جائے ۔ اس طرح علوم کو چھ اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
1علمِ فرض عین
2۔ علمِ فرضِ کفایہ
3مستحب علوم
4 مباح علوم
5 مکروہ علوم
6 حرام علوم
تدریس کے نکتہ نظر سے پہلے دو علوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے علم فرض عین وہ علوم ہیں جو عقائد ، فقہ ، اخلاقیات اور اصول و ضوابط کا وہ مجموعہ ہے جو ہر مسلمان کے علم میں ہونا ضروری ہے ۔ دوسری طرف علم فرض کفایہ وہ علوم ہیں جو کسی قوم اور معاشرے کی ضروریات کے لیے ناگزیر ہیں ۔ میری تجویز ہے کہ اگر ہم ایک انقلابی قدم اٹھانا چاہیں تو تمام اسکولوں کو ہائیر سیکنڈری کی سطح تک کر دیں جہاں تمام طلباء علم فرض عین کے حصول کے ساتھ ساتھ علم فرض کفایہ کے مختلف شعبہ جات کا بنیادی علم حاصل کریں ۔ اس کے بعد طلباء اس قابل ہوں کہ اپنی مرضی کے مطابق تخصصSpecialization کے لے یونیورسٹی میں داخلہ لیں یا ووکیشنل اداروں سے ہنر مندی سیکھ کر اپنے آپ کو معاشرے کے لیے کار آمد بنائیں ۔ یونیورسٹی میں علومِ دینیہ اور فقہ کے شعبہ جات بھی اسی طرح ہوں جس طرح عمرانیات ، نفسیات ، طب ، ریاضی اور سائنسی علوم کے شعبہ جات ۔ ماضی میں ہمارے پاس زیتونہ یونیورسٹی کی مثال موجود ہے لیکن یہ اقدام حکومتی سطح پر ہونے والے ہیں اور ان کے لیے عوام میں شعور اور طلب پیدا کرنا اور حکومتی سطح پربھر پور کوششیں کرنے کی ضرورت ہیں ۔
سوال۔ آپ مائوں کو بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں کیا نصیحت کریں گی؟ خاص طور سے ابتداء میں اسکولوں کے انتخاب کے سلسلے میں اور بچوں کے بہتر تعلیمی نتائج کے لیے ۔
جواب۔ آپ نے یہ موضوع ایسا چھیڑا ہے جس پر با قاعدہ کتب تحریر کی جا سکتی ہیں ۔مختصراً یہ کہوں گی کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے لیکن ماں کو درسگاہ کا نام سنتے ہی آج کے اسکول کو ذہن میں لانے کی ضرورت نہیں ۔ ماں کی درسگاہ ایک مختلف نوعیت کی درسگاہ ہے ۔ بچے کی پوری شخصیت و کردار کا دارومدار اس پر ہے کہ ماں اور بچے کا تعلق کیسا ہے ۔ بچے کو بھر پور توجہ دینا اس کی ابتدائی ضروریات کا خیال رکھنا اور ساتھ ساتھ اسے اعتماد اور طمانیت دینا ۔ بھر پور محبت کے باوجود اسے ضدی بننے سے اور توڑ پھوڑ کرنے سے بچانا کچھ اس کی ماننا اور کچھ اپنی منوانا ۔
شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ مائوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب بچہ ڈیڑھ دو سال کا ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائے اس عمرمیں بچے مائوں سے باتیں کرنا چاہتے ہیں اور بہت سی چیزیں باتوں باتوں میں سیکھتے ہیں ۔ اس عمرمیں بچوں کو رنگین تصاویر والی کہانیاں پڑھ کر سنانا یا زبانی چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنانا اور بچوں کی باتیں غور سے سن کر سوال جواب کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اس طرح انہیں زبان پر بھی عبور ہوتا ہے اور معلومات بھی بڑھتی ہے ۔
اسکول کے انتخاب میں آپ یہ ضرورد یکھیں کہ اس اسکول میں جو نصاب چل رہا ہے اس کے مطابق کلاس 1 میں جانے سے پہلے بچہ کون سی مہارتیں (skills) حاصل لے گا ۔ بچہ کی آئندہ تعلیمی زندگی کی سب ے اہم چیزReading Skillیعنی پڑھائی پر عبور ہے اگر کسی بچے کو کتاب پڑھنا آ جائے تو علم کے دروازے اس پر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن کسی بچہ کو اپنی کورس کی کتاب پڑھتے دیکھ کر اندازہ نہ لگائیں کہ اسے پڑھنا آتا ہے یا نہیں ۔ کسی اور چھوٹی سطح کی کتاب سے جانچیں ۔ عام طور پر اسکولوں میں پڑھائی سے پہلے ہی لکھائی پر زور دیا جاتا ہے ۔ جو بچے عام طور پر شوق سے نہیں کرتے اور ان کا دل اسکول سے بھی اچاٹ رہتا ہے ۔ لکھائی سیکھنا بھی بچے کے لیے ضروری تو ہے لیکن جب وہ پڑھائی کرنے پر عبور حاصل کر لیتا ہے تو لکھنا کافی آسان ہو جاتا ہے ۔
اسکول کے انتخاب میں بہت اہم چیز اسکول کا ماحول ہے ۔ اسکول کے ماحول میں اگر بہت سی چیزیں ہماری تہذیب و مذہب کے خلاف ہیں تو پھر محض گھر کا ماحول بچے کو غلط سمت میں لے جانے سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ۔
اسکول کے صحیح انتخاب کے علاوہ پڑھی لکھی مائوں کو ہوم اسکولنگHome Schooling کی طرف بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ آج پوری دنیا میں اسکولوں میں اجتماعی تعلیم یعنیMass Education کے بارے میں بہت تنقید ہو رہی ہے جن میں سے بہت سی باتیں درست بھی ہیں ۔ اسی لیے مائوں کو نہ صرف اس کے بارے میں جاننے کی بلکہ مختلف جگہ سے ٹریننگ حاصل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔
محترمہ صفورہ نعیم صاحبہ آ پ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا آپ کا بہت شکریہ ۔