قیصر جمیل احمد ملک ایڈووکیٹ
معروف صحافی اور دانشور شاہد کامرانی مرحوم نے اپنی تصنیف ’’سندھ کا منظرنامہ‘‘ جس کی اشاعت اپریل 1988ء میں ہوئی، میں سقوط ڈھاکا کے حوالے سے چند اہم انکشافات کیے ہیں کہ اُن کی رائے میں علیحدگی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا منطقی نتیجہ تھی اور اس کی کوشش اس وقت شروع ہوئی تھی جب 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کیا تھا اس دن کی نشری تقریر میں ایوب خان کے یہ الفاظ بڑے واضح تھے کہ ’’میں ایسا اقتدار نہیں چاہتا جو ملک کی تقسیم میں فریق ہو‘‘۔ جب کسی مطالبے کے بغیر ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مساوات کے اصول کو ختم کرکے راتوں رات مشرقی پاکستان کو 56 فی صد اکثریت کا صوبہ قرار دے دیا گیا اور ملک میں ہر طرح کی سیاسی آزادی کا اعلان کیا گیا تو قومی سطح پر اور خاص طور پر مغربی پاکستان میں یہ تاثر عام کیا گیا کہ اب مشرقی پاکستان ہمیشہ مغربی پاکستان پر حکومت کرے گا اس پرچار کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو غیر محسوس طریقے سے یہ باور کریا جائے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ اب وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے اور اگر دونوں بازوؤں کے اتحاد کو قائم رکھا گیا تو مغربی پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
جناب شاہد کامرانی نے 19 جنوری 1971ء کو مدیر ’’زندگی‘‘ جناب مجیب الرحمن شامی سے اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ انہوں نے چھوٹتے ہی مجھے مشورہ دیا کہ بھائی آپ اپنے قلم کو شیخ مجیب کے لیے استعمال کریں ان کی پالیسی کی حمایت کی جائے کیوں کہ اسی طرح آپ لوگوں کا بھلا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بازو کو الگ کرنے کے لیے کام شروع کردیا ہے، ہم بنگال کی مستقل غلامی میں نہ رہنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، ہم اسے مغربی پاکستان سے الگ کردیں گے اس لیے آپ کا بھلا اسی میں ہے کہ آپ بنگالیوں کا ساتھ دیں۔
18 جنوری 1970ء کو قائد تحریک اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پلٹن میدان میں منعقدہ جماعت اسلامی کے انتخابی جلسے سے خطاب نہیں کرسکے۔ اس لیے کہ عوامی لیگ کے کارکنوں نے جلسے کو درہم برہم کردیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے تقریباً سات سو ارکان، کارکنان اور ہمدرد زخمی ہوئے حالاں کہ اسی جگہ پر صرف ایک ہفتہ پہلے 11 جنوری کو شیخ مجیب الرحمن نے ایک پرامن جلسہ کیا تھا مگر جماعت اسلامی کے جلسے کے موقع پر ریاستی اتھارٹی خاموش تماشائی بنی رہی، اس دن ڈھاکا میں نہ تو گورنر صاحب موجود تھے نہ ہی DIG,IG اور نہ ڈپٹی کمشنر۔ ایک سازش کے تحت پوری انتظامیہ غائب تھی اور سازش کے تحت ہی پولیس کے دستے کو بھیجا گیا جس کی چھتری تلے سیاسی غنڈوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ یہ انتخابی مہم کی دیگ کا وہ پہلا چاول تھا جو بتا رہا تھا کہ اس دیگ میں کتنا زہر بھرا ہوا ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے ائرمارشل اصغر خان نے یہ بات کہی تھی کہ گڑبڑ فوجی حکومت کی ایما پر کرائی گئی۔ میجر جنرل فضل مقیم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی لیگ کے کارکن حکومت کے سول افسروں، پولیس حتیٰ کہ مارشل لا ہیڈ کوارٹر ڈھاکا میں متعین فوجی افسر جن کا تعلق مشرقی پاکستان ہی سے تھا کے باہمی تعاون سے اس جلسے کو تہس نہس کیا گیا۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی خان نے اس المناک واقعے کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ 18 جنوری 1970ء کو جماعت اسلامی کے جلسہ عام میں جو کچھ ہوا وہ مارشل لا کے تحت لا اینڈ آرڈر کے انچارج بریگیڈئر مجید الحق کے ایما پر ہوا جو ایک متعصب فوجی افسر تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان جو ان دنوں مشرقی پاکستان میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، ان سے جب کسی نے مارشل لا کے ضابطہ نمبر 60 کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے ہم نے مارشل لا کی کاٹ کو کند کردیا ہے لیکن ان دنوں کے حالات یہ بتارہے ہیں کہ مارشل لا اتھارٹی مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کررہی تھی۔
1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے صرف دو سیٹوں کے علاوہ 151 سیٹیں عوامی لیگ کو ملیں۔ اس کامیابی کی اصل وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی اور دائیں بازو کی دوسری مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کو قدم قدم پر سبوتاژ کیا گیا۔ پولنگ والے دن عوامی لیگ مخالف امیدواروں کی اکثریت کے پولنگ کیمپس کو نذرِ آتش کیا گیا اور ایک ایک حلقہ انتخاب میں بوگس ووٹروں کو ٹرکوں میں بھر بھر کر ووٹ ڈالنے کے لیے پہنچایا گیا، دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس موقع پر ایک ایک حلقہ انتخاب کے لیے اخراجات کی مد میں تین لاکھ سے دس لاکھ روپے تک دیے۔ اس کنٹری بیوشن میں مشرقی پاکستان کے ہندوؤں، صنعت کاروں، تاجروں اور ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کا خصوصی کردار ادا کیا۔
جنرل راؤ فرمان علی نے اعتراف کیا کہ ’’ہر سرکاری محکمہ عوامی لیگ کے ووٹروں کے لیے کھلا ہوا تھا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ منصب تک ان کی پہنچ تھی۔ ان لوگوں نے عوامی لیگ کی فتح میں زبردست کردار ادا کیا۔ انتخابات کے سارے انتظامات جن لوگوں کے ہاتھ میں تھے وہ عوامی لیگ کے طرف دار تھے۔ عوامی لیگ کے مخالفین پولنگ اسٹیشنوں تک بھی نہ آسکے، زبردستی مہریں لگوائی گئیں کسی کو احتجاج کی جرأت نہ ہوئی۔ احتجاج کس سے کیا جاتا، فوج اپنے آپ کو سارے معاملے سے لاتعلق سمجھتی تھی ان انتخابات میں خاصے جعلی ووٹ بھگتائے گئے اور پوری سول انتظامیہ مجیب کی پشت پر تھی۔ (اردو ڈائجسٹ لاہور‘ مئی 1978ء) خان عبدالولی خان مرحوم نے حمود الرحمن کمیشن کے سامنے بیان دیا۔ مشرقی پاکستان میں 1970ء کے انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ صاف ستھرے ماحول میں اُن کا انعقاد ہوا۔ (ہفت روزہ اداکار، لاہور 28 اگست 1972)۔
ہمارے سیاست دان، صحافی، دانشور اور مورخ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ 1970ء کے انتخابات ہماری تاریخ میں آزادانہ اور منصفانہ تھے، حالاں کہ یہ ایک تاریخی جھوٹ ہے۔ انتخابات سے قبل اور دوران انتخابات مشرقی پاکستان میں ہمارے حکمرانوں کا جو رویہ رہا اس کے جو منطقی نتائج برآمد ہوئے اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، خوب سوچ سمجھ کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر اپنی تاریخ کو درست کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کسی مزید حادثے سے بچا جاسکے۔ اس وقت ملک کا حکمران اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائدین ببانگ دہل عدلیہ اور متقدر قوتوں کو للکار رہے ہیں اور سقوط ڈھاکا جیسے کسی حادثے سے خوف زدہ کررہے ہیں اس آواز میں ملک کے دائیں بازو کے صحافی اور دانشوروں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔
جناب مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی، عرفان صدیقی، اختر عباس، عطا الحق قاسمی اور میاں عامر محمود جیسی شخصیتیں راگ سے راگ ملارہی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سقوط ڈھاکا جیسے کسی حادثے کے خطرے سے ہمیں ڈرانے والے بڑے اور اکثریتی صوبے کی سیاسی قوت اور لیڈران ہیں اور ان کے ساتھ بدقسمتی سے علما کا ایک بڑا دھڑا بھی شامل ہے، آئندہ انتخابات سے پہلے ملت پاکستان کو خواب خرگوش سے بیدار ہونا ہوگا۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔