ایں حکمراں ہمہ آفتاب است

438

پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں نے جس طرح قوم کو مجاوروں کی عملی تصویر بن کر دکھایا ہے اس طرح تو دنیا میں کسی قوم کے حکمرانوں نے نہیں کیا۔ معاملہ صرف شریف خاندان کا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔۔۔ کیوں کہ اس خاندان یعنی شریف خاندان کا وزیراعظم نااہل، اس کے دو بیٹے اشتہاری، داماد کے خلاف مقدمات، بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قتل کے مقدمات، بدعنوانی کے الگ، ایک صوبے کے ۲۶۰ اداروں میں بدعنوانی کی تحقیقات جاری ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شریفوں کے سمدھی کو درجنوں مقدمات میں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔ عبوری وزیراعظم (اس خاندان سے رشتے داری ظاہر نہیں) خود ایل این جی کیس کا مرکزی ملزم رہا ہے۔ نجی فضائی کمپنی بھی چلا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے ۱۶۳ اراکین عدالت سے نااہل قرار دیے جانے والے شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے خلاف قرار داد مسترد کردیتے ہیں۔ ہر مرتبہ رائے شماری کا طریقہ ضرورت کے مطابق اختیار کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ ارکان اسمبلی کو کھڑا کرکے رائے شماری کرائی گئی تا کہ صاف نظر آجائے کہ کون ساتھ ہے کون نہیں۔ بات صرف ایک پارٹی کی نہیں ہے، سندھ میں رکن اسمبلی شرجیل میمن اربوں روپے کے گھپلے کے باوجود جمہوریت کے چمپئن ہیں۔ اربوں روپے کے گھپلوں کا اعتراف کرنے والے ڈاکٹر عاصم جمہوریت کی خاطر سب کچھ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم ہیں تو عاصم لیکن سب کو پتا ہے کتنے عاصم ہیں۔ اگر بلوچستان کا رخ کریں تو وزیر، سیکرٹری سب رنگے ہوئے ملے۔ پانی کے ٹینک میں نوٹ، بستر میں نوٹ، کسی کے کشتی میں نوٹ اور کسی کے پرس میں ڈالر اور پھر بھی سب کے سب بے گناہ نکلے۔۔۔ کسی کے خلاف ثبوت نہیں ملا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ہنگامہ مچا کہ ملک میں آٹے اور شکر کے کاروبار میں بلیک کرنے والے ڈیڑھ سو سے زائد لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ ان میں سے کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ کیا یہ تائب ہوگئے! یا سارا آٹا اور شکر خیرات کردی؟؟ نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ ان سب نے مل کر قانون سازی کی اور ایسے قوانین بنالیے کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کون کس کے کہنے پر جاری کرتا ہے۔ کچھ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھ کر دن رات اپنی دولت بڑھانے اور ٹیکس سے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہوتے ہیں، انہیں قانون سازی، عوام کے مسائل، قومی غیرت وغیرہ جیسے معاملات سے سروکار نہیں ہوتا۔ عافیہ کو کیسے لایا جائے اس پر کبھی نہیں سوچتے۔ یہ ان کا مسئلہ بھی نہیں، جگہ جگہ عافیہ موومنٹ والوں نے بینرز لگائے ہیں غیرت مند لیڈر کی تلاش لیکن حکمران میں اس قسم کی کوئی چیز ہوتی تو اب تک مل ہی چکی ہوتی۔ بات دو چار لوگوں کی نہیں ہے بلکہ ہزاروں ارکان پارلیمنٹ کی ہے۔ یہ لوگ پارٹی بدل بدل کر آتے ہیں۔ پچھلی پارٹی میں جس کو چور کہتے تھے آج اسی پارٹی میں ہیں اور اب اس پارٹی کو چور کہتے ہیں جن کو چھوڑا ہے، اپنے دور حکمرانی میں وزیر مشیر رہنے والے ساری خرابیوں کو بھول کر تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن کمال تو خاندانوں نے کیا ہے ایک بھٹو خاندان اور دوسرا شریف خاندان، دونوں نے اس ملک کے عوام کو وہ وہ سبز باغ دکھائے کہ لوگ اب تک ان وعدوں کے سحر میں ان کو ووٹ دیے جارہے ہیں۔ لاڑکانہ کو پیرس بنایا جائے گا، نوابشاہ کو لندن بنایا جائے گا، پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنایا جائے گا، کراچی کو حقوق دلائے جائیں گے۔ مہاجروں کو شناخت دلوائیں گے اور ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے، ان میں سے تو کوئی کام نہیں ہوا۔ لیکن حکمرانوں کے بچے سیٹ ہوگئے، ان کے دن لندن میں، راتیں پیرس میں اور چھٹیاں دبئی میں گزرنے لگیں۔ کبھی کبھی پاکستان بھی آجاتے ہیں، یہ لوگ لندن، دبئی، پیرس، امریکا جاتے کیوں ہیں، کرتے کیا ہیں۔۔۔ کیا ہمارے لیے آپ کے لیے کچھ کرتے ہیں، نہیں اس غلط فہمی کو دل و دماغ سے نکال دیں۔
یہ حکمران ہمارے ساتھ کرتے کیا ہیں۔ اس کا اندازہ لطیفے سے لگالیں کہ ایک کنجوس آدمی کے گھر مہمان آگئے، اس نے اپنے تربیت یافتہ لڑکے سے کہا کہ جا کر بازار سے سب سے عمدہ گوشت لے کر آؤ۔ لیکن بیٹا بہت دیر بعد خالی ہاتھ چلا آیا۔ اس وقت تک مہمان واپس جانے کے لیے کمر باندھ چکے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہوا کیا ہے۔ چناں چہ بیٹے نے بتایا کہ ہوا یوں کہ میں گوشت کی دکان پر گیا اس سے بہترین گوشت مانگا اس نے کہا کہ ایسا عمدہ گوشت دوں گا گویا مکھن۔ میں نے سوچا تو پھر مکھن ہی لے لوں۔ مکھن والے سے کہا کہ بہترین مکھن دے دو، تو کہنے لگا ایسا مکھن دوں گا کہ گویا شہد، میں نے سوچا پھر کیوں نہ شہد لے لو، تو پھر شہد والے نے کہا کہ ایسا شفاف شہد دوں گا کہ گویا صاف شفاف پانی، تو میں نے سوچا کہ یہ تو گھر میں ہی ہے۔ سو میں خالی ہاتھ آگیا۔ مہمان کوئی بات نہیں کہہ کر چلے گئے۔ باپ نے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ واہ کیا زبردست ترکیب لڑائی۔ لیکن بیٹا ایک نقصان تو کردیا۔ اتنی دکانوں کے چکر میں جوتے تو گھس دیے ہوں گے کافی حد تک۔ بیٹا فخر سے بولا، جی نہیں ابا جی، وہ مہمانوں کی پہن کر گیا تھا۔ ابا جی نے شاباش کہہ کر گلے لگالیا۔ تو یہ جو آج کل حکمران خاندان ایک دوسرے کو اور اپنے بچوں کو شاباش کہہ کر گلے لگارہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بچے بھی ہماری چپلیں پہن کر گوشت لینے لندن گئے تھے، شہد لینے دبئی گئے تھے، مکھن لینے امریکا گئے تھے اور صاف پانی کے لیے پیرس گئے تھے۔ پھر اپنے بچوں کو یہ حکمران شاباش ہی کہیں گے۔ واہ بھی آفرین ہے۔