!بولنا جرم ہے

417

سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے کراچی والوں کو تشفی دی ہے کہ بدظن اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم ان کے ساتھ ہیں وہ ہماری ضرورت کا خیال کریں ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ جو پارٹیاں کراچی اور صوبے کی سیاست کررہی ہیں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تو۔ پھر آپ کی پارٹی کی پریشانی کا سبب کیا ہے اور اس نے یہ نعرہ کیوں لگانا شروع کردیا ہے کہ ’’مرسوں، مرسوں، سندھ نہ ڈے سوں‘‘۔
موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کے ٹوٹنے کی بات کرنے والوں کے منہ میں کسی اور کی زبان ہے۔ ڈاکٹر صاحب! بولی تو آپ بھی کسی اور کی بول رہے ہیں۔ موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان انہوں نے بنایا ہے اور یہ ہمیشہ قائم و دائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ سقوط ڈھاکا کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟!!!۔ انہوں نے دیگر سیاست دانوں کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی مگر یہ دعوت ان کو بہت مہنگی پڑی۔ تازہ اطلاع کے مطابق ضرورت سے زیادہ بولنے پر ڈاکٹر صاحب کو پیپلز پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیماری اور ذاتی مصروفیات کے باعث استعفا دیا ہے اور اب وہ ایک کارکن کی حیثیت سے پارٹی کی خدمت کرتے رہیں گے مگر حالات اور واقعات ان کی تکذیب کررہے ہیں، معاملہ اتنا اندرونی ہے کہ باہر آتے آتے کچھ وقت لے گا۔ شاید وہ بھی میاں نواز شریف کی طرح مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگائیں گے۔ شنید ہے کہ آصف زرداری صاحب کو سیاست میں ان کی فعالیت پسند نہیں آئی، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ان کی بے تکلفی سے زرداری صاحب کو بہت تکلیف پہنچی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی جانب سے پاکستان بنانے کا دعویٰ بھی ان کی ذات کو مشکوک بنانے کا سبب سمجھا جارہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو پیپلز پارٹی کی ’’خدمت خاص‘‘ کے صلے میں کچھ عرصہ قبل ہی کراچی ڈویژن کا صدر بنایا گیا تھا مگر ایم کیو ایم سے رابطوں نے بنا بنایا کام بگاڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو دہشت گردوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کے الزام میں سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول زرداری کی خوشنودی کے حصول کے لیے بیان دیا تھا کہ بہت سے سیاست دان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے پَر تول رہے ہیں بلکہ بہت سوں نے تو رخت سفر بھی باندھ لیا، جس پَر کھولنے کی دیر ہے۔ بات چیت چل رہی ہے، گفتگو ہورہی ہے مذاکرات کا دور جوبن پر ہے کسی بھی وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بغل گیر ہوسکتے ہیں، ڈاکٹر صاحب عجز بیانی کا مظاہرہ کیا تھا، بغل گیری کا مشغلہ تو آئے دن ہوتا ہی رہتا ہے، موسمی پرندے اپنے وقت پر پرواز کر ہی جاتے ہیں۔ یہاں تو مرغ دست آموز بھی اڑان بھرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
ڈاکٹر صاحب کو شکوہ ہے کہ میاں نواز شریف نے انہیں ناحق پکڑا ہے، شاید ڈاکٹر صاحب کی آہ کا اثر ہے کہ اب میاں نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی رٹ لگارہے ہیں۔ ممکن ہے ان کے پیرومرشد نے علم رمل کے کسی فارمولے سے میاں صاحب کے حالات کو ہم آہنگ پا کر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ورد کرنے کی ہدایت کی ہو۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی یہ سوچ بہت پسند آئی ہے کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر میاں نواز شریف کا فیصلہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ انصاف ایسا ہو کہ دکھائی بھی دے، آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بھی میاں نواز شریف کی طرح ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ورد شروع کرنے والے ہیں۔