!سندھ کے مویشیوں کو بھی شناخت مل گئی

621

ابھی پچھلے پرلے روز کی بات ہے۔ ہمارے صوبہ سندھ کی اسمبلی نے ایک دلچسپ قانون منظور کیا۔اِس قانون کی رُو سے اب جانوروں کے بھی شناختی کارڈ بنا کریں گے۔ اپنا اپنا شناختی کارڈ بنوانے کے بعد جانور صاحبان اپنے اپنے پاسپورٹ بھی بنوا سکیں گے۔ دساور بھی جاسکیں گے اور بقول ابن انشا:
ہو جائیں گے جاکر کہیں پردیس میں نوکر
یاں سال میں اِک بار بھی آیا نہ کریں گے
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے صوبے کی قانون ساز اسمبلی نے یہ اچھا کام کیا کہ اپنے جانور بھائیوں کے لیے قانون بنایا۔ انسانوں کے لیے قانون بنانے کا انجام، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ، کیا ہوا؟ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کوئی انسان قانون سے نہیں ڈرتا۔ لاقانونیت سے ہر انسان البتہ ڈرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو ’’انسان‘‘ سمجھنے والا کوئی بھی شہری کسی قانون پر عمل نہیں کرتا۔ لاقانونیت ہی کو عملاً اختیار کیے رکھتا ہے۔ ہمارے صوبے کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی، کہا جاتا ہے کہ، انسانوں ہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سو وہ بھی قانون پر عملدرامدکروانے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔لاقانونیت پر عملدرامد کروانے کی فکر میں ضرور سرگرداں رہتے ہیں۔ چناں چہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہایت فرض شناسی اور تن دہی سے لبِ سڑک اور سرِ عام لاقانونیت کی سرپرستی فرماتے نظر آتے ہیں۔ غالباً انھی وجوہ کی بنا پر سندھ اسمبلی بھی اب آدمیوں پر لعنت بھیج کر جانوروں کے لیے قانون بنانے میں منہمک ہو گئی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ انسان بھی ایک ’’جان وَر‘‘ ہے۔ پس ریاضی کے ایک کلیے سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جانور بھی انسان ہیں۔ بلکہ وہ کچھ زیادہ ہی انسان ہیں۔ کیوں کہ وہ انسانوں کے مقابلے میں زیادہ قانون پسند ہیں۔ وہ دینِ فطرت کے تمام قوانین پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ ہماری محترمہ بہن زہرہ نگاہ ؔ پچھلے اکتّیس برسوں سے اپنے شہر کے حالات کا مسلسل مشاہدہ کرنے کے بعد، غالباً بن باس لینے کی غرض سے، سب کو بتا چکی ہیں کہ:
’’سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے،
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا‘‘۔
مگر اے صاحبو! یہ ایک طویل نظم ہے، اس وقت پوری سنانے کی گنجائش نہیں ہے۔ نظم کے آخر میں زہرہ نگاہؔ اپنا دستِ دُعا بلند کرتی ہیں:
’’خدا وندا، جلیل و معتبر، دانا و بینا، منصف و اکبر
مرے اِس شہر میں اب
جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!‘‘ (آمین!)
اے لو! ہم بھی اس جنگل میں پہنچے تو اپنا رستہ بھول گئے۔ بات ہو رہی تھی مویشیوں کا شناختی کارڈ بننے کی۔ اُن کا پاسپورٹ بننے کی۔ انہیں ویزا ملنے کی۔ وغیرہ وغیرہ۔ سنا ہے کہ یہ قانون بننے سے مویشیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یوں تو مویشیوں میں بھی بہت سے قائدِ تحریک پائے جاتے ہوں گے، مگر انہیں اپنے کسی قائدِ تحریک کو بھگتے بغیر ہی گھر بیٹھے ۔۔۔ ارے توبہ۔۔۔ اپنے باڑے میں بیٹھے بٹھائے ۔۔۔ ’’شناخت‘‘ مل گئی ہے۔ شناخت ہی نہیں ملی، شناختی کارڈ بھی ملنے والا ہے۔ شناختی کارڈ مل جائے تو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ووٹ دینے کا حق بھی مل جاتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ہو سکتا ہے کہ ووٹ دینے کی قطار میں آپ کے پیچھے کوئی بیل بھی گلے میں شناختی کارڈ لٹکائے کھڑا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری بھابھی صاحبہ کی قطار میں کوئی بھینس کھڑی کسی سے پوچھ رہی ہو:
’’اے بہن! بائیو میٹرک ووٹ دینے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ میں تو پہلی بار ووٹ ڈالنے آئی ہوں‘‘۔
بہن تڑپ کر کہتی ہیں:
’’خبردار! جو مجھے بہن کہا۔ میں تجھے اپنی بہن نظر آرہی ہوں؟ میں تو خود ایک سیاسی لیڈر ہوں۔ پہلے فلانی پارٹی میں تھی، اب ڈھمکی پارٹی میں ہوں‘‘۔
مویشیوں کو خوشی اس بات کی ہے کہ صرف اُن کے مالکان ہی اُن کے شناختی کارڈ نہیں بنوائیں گے، سیاسی پارٹیاں بھی جوق در جوق اُن کے شناختی کارڈ بنوانے کو اُن کی طرف لپکیں گی۔ انہیں طرح طرح کے چارے ڈالیں گی۔ بھیڑ بکریوں کو بھی انسانوں کی طرح گاڑیوں میں بھر بھر کر پولنگ اسٹیشن لے جائیں گی۔ ایک دن ہی سہی، مگر ہر اُمیدوار اُن کو جھک جھک کر سلام کرے گا۔ اگر سندھ کی دیکھا دیکھی پنجاب میں بھی جانوروں نے اپنے شناختی کارڈ بنانے کا مطالبہ کردیا اور مطالبہ منظور ہو گیا تو وہاں بھی الیکشن کی گہما گہمی میں میلۂ مویشیاں کا اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارے زندہ دلانِ لاہور تو شاید اُس جانور کو بھی مویشیوں میں شمار کرنے لگے ہیں، جسے (ووٹ مانگنے کا) وقت پڑنے پر باپ بنا لیا جاتا ہے۔
ہمارے صوبہ سندھ کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سلام دُعا اور ’’راضی باضی، خوش، بھلو چنگو، جوڑ تکڑو؟‘‘ کے بعد ایک دوسرے کے مال مویشیوں کا حال احوال بھی دریافت کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی انتخابی اُمیدوار کہیں ووٹ ہموار کرنے جائے گا اور حال پوچھے گا تو اُس کو اس قسم کے جوابات ملیں گے:
’’سائیں میرے چار بیٹے ہیں۔ ایک کی عمر دس سال، دوسرے کی بارہ سال، تیسرے کی چودہ سال اور چوتھے کی سولہ سال ہے۔ ان میں سے کسی کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہے۔ مگر میری ایک بھینس ہے اور ایک ہفتہ پہلے اُس کے یہاں ایک بچھڑے کی ولادت ہوئی ہے۔ دونوں کے شناختی کارڈ بن چکے ہیں۔ میرا ووٹ تو خیر سے ’بی بی کی امانت‘ ہے۔ ان سے بات کر لو۔ بچھڑا ویسے بھی پی ٹی آئی کو پسند کرتا ہے۔ ہر وقت اچھل کود کرتا رہتا ہے۔ بھینس بھی بڑی شوقین مزاج ہے ۔۔۔ اُس کے آگے ۔۔۔ سائیں ۔۔۔ بین بجا کر دیکھونا!‘‘