ہر بیماری کا علاج۔ آپریشن؟

641

قدیم زمانے میں بھی بیماریاں تھیں اور ان کا علاج بھی ہوتا تھا لیکن انسان کو ایک ذی روح مخلوق سمجھتے ہوئے اس کے علاج پر توجہ دی جاتی تھی۔ پوری دنیا میں یونانی طب کا شہرہ ہے، اس طریقہ علاج میں بھی انسانی جسم کے احترام کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور اسے چیرے پھاڑے بغیر مختلف بیماریوں کے علاج تجویز کیے گئے ہیں۔ مشرقی طب میں بھی اسی اصول کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدرت نے بیماریاں پیدا کی ہیں تو ان کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔ موت کے سوا کوئی بیماری بھی لاعلاج نہیں۔ ہر بیماری کا دنیا میں علاج موجود ہے اور زمانہ قدیم سے رہا ہے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پرانے زمانے میں اتنی رنگارنگ بیماریاں نہیں تھیں جو دورِ حاضر می نظر آتی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ماضی کا آدمی سادہ زندگی گزارتا تھا، سادہ خوراک کھاتا تھا، آلودگی سے پاک صاف ماحول میں رہتا تھا۔ پیدل چلتا تھا اور صحت مند و پاکیزہ مشاغل اختیار کرتا تھا۔ اب یہ چیزیں نایاب ہوگئی ہیں اور زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ آدمی کو سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی عدیم النظیر ترقی اور میڈیکل سائنس کی غیر معمولی پیش رفت نے آدمی کو ایک کموڈٹی یا مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ مغربی طب یا ملحوانہ معاشرے کے طریقہ علاج میں یہ تصور ہی سرے سے مفقود ہے کہ آدمی ایک ذی روح مخلوق ہی نہیں اسے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، اس کا جسم اللہ کی امانت ہے جس میں تصرف نہیں کیا جانا چاہیے۔ آدمی کا جسم بیمار پڑتا ہے تو اس کا علاج اسے چیرے پھاڑے بغیر کیا جانا چاہیے۔ لیکن اب ہر بیماری کا علاج آپریشن میں تلاش کرلیا گیا ہے گویا آدمی نہ ہوا ایک مشین ہوگیا۔ جس طرح آدمی کی تیار کردہ مشین خراب ہوجائے تو اسے کھول کر خراب پرزہ درست کردیا جاتا ہے یا زیادہ خراب ہے تو اسے نکال کر نیا لگادیا جاتا ہے، یہی معاملہ خود انسانی جسم کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ بچے کی پیدائش میں ذرا سی تاخیر ہوجائے تو ڈاکٹروں نے اس کا حل بھی یہی نکالا ہے کہ ماں کا پیٹ چاک کرکے بچہ برآمد کرلیا جائے۔ اس وقت نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت ایک کاروبار کا درجہ اختیار کرگیا ہے، ایک عزیزہ بتارہی تھیں کہ وہ اپنی بہو کو ڈیلیوری کے وقت ایک پرائیویٹ کلینک میں لے کر گئیں تو لیڈی ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اس کے تو بچہ آپریشن سے ہوگا۔ آپ تیس ہزار روپے ایڈوانس جمع کرادیں باقی اخراجات بعد میں طے کرلیں گے۔ میری بہو کے پہلے ہی دو بچے معمول کے مطابق پیدا ہوچکے تھے وہ تیسرے بچے پر آپریشن کرانے کے لیے تیار نہ ہوئی اور گھر واپس آگئی۔ چناں چہ گھر میں نہایت آسانی سے بچے کی ولادت ہوگئی اور میں نے دایہ کی خدمات انجام دے دیں۔
کچھ یہی معاملہ دل کے آپریشن کا بھی ہے۔ جہاں دل کے ایک یا دو والو بند ہوئے ڈاکٹر فوراً دل کے بائی پاس (اوپن ہارٹ سرجری) کا مشورہ دے دیتے ہیں۔ جو نہایت مہنگا علاج ہے۔ مریض کو اسٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چین سے درآمد شدہ اسٹنٹ ڈھائی سے تین سو روپے میں پڑتا ہے لیکن پاکستان میں ڈاکٹر مریض سے 2 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، جب کہ اوپن ہارٹ سرجری پر اخراجات 5 لاکھ روپے تک آتے ہیں، اس عمل میں مریض کا سینہ چاک کرکے دل باہر نکال لیا جاتا ہے اس کی صفائی کی جاتی ہے اس کے بند والو کھولے جاتے ہیں، شریانوں کی مرمت کی جاتی ہے پھر دل کو اس کے مقام پر رکھ کر سینہ بند کردیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ آپریشن کے دوران کوئی اوزار سینے کے اندر ہی رہ گیا جب مریض کو تکلیف ہوئی اور سینے کا ایکسرے کیا گیا تو اوزار کی موجودگی کا پتا چلا۔ چناں چہ سینہ دوبارہ چاک کرنا پڑا، آپریشن کے دو تین گھنٹے بعد مریض کو ہوش آتا ہے وہ بستر پر لیٹے لیٹے آنکھ کھولتا ہے تو مریض کے رشتہ داروں کی جان میں جان آتی ہے، ورنہ انہیں یہ دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ کہیں روح قفس عنصری سے پرواز نہ کرجائے اور انہیں مریض کی لاش اُٹھا کر گھر جانا پڑے۔ ہم نے یہ منظر اسلام آباد کے نہایت مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں دیکھا ہے، ایک مریض آپریشن کے بعد انتقال کرگیا، ممکن ہے کہ آپریشن کے دوران ہی چل بسا ہو لیکن اس کی موت کا اعلان آپریشن کے بعد کیا گیا، آپریشن کی فیس تو ایڈوانس وصول کرلی گئی تھی، ہسپتال کے دیگر اخراجات کا بل الگ تھا جو ابھی واجب الوصول تھا اور ہسپتال کی انتظامیہ مصر تھی کہ پہلے بل ادا کرو پھر لاش اُٹھانے دیں گے، لواحقین متردد تھے کہ بل کیسا؟ تنازع بڑھا تو لواحقین نے کہہ دیا اچھا لاش خود دفنا دو ہم جارہے ہیں، اس پر ہسپتال کی انتظامی گھبرا گئی اور اسے سمجھوتا کرنا پڑا۔ ڈاکٹری کا تعلق خدمت خلق سے ہے اور ڈاکٹر مریض کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتا ہے لیکن جدید میڈیکل سائنس نے اسے تاجر اور مریض کو گاہک بنادیا ہے جسے پھانسنے کے لیے تمام حربے آزمائے جاتے ہیں، اس سائنس نے انسانی اعضا کو خرید و فروخت کی اشیا بنا دیا ہے، اخبارات میں گُردوں کے ناجائز کاروبار کے اسکینڈل چھپتے رہتے ہیں اور ان میں باقاعدہ ڈاکٹر ملوث ہوتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مغرب کی طبی ترقی نے انسان کو بہت کچھ دیا ہے تو اس سے بہت کچھ چھینا بھی ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے اس کی انسانیت چھین لی ہے اور اسے محض ایک جاندار کا درجہ دے دیا ہے جسے بلاتکلف چیرا پھاڑا جاسکتا ہے جب کہ اس سے پہلے ایسا نہ تھا، بیماریاں پہلے بھی تھیں لیکن ان کی تشخیص و علاج کے نہایت مہذب طریقے رائج تھے اور انسانی جسم کو چھیڑے بغیر اس کا علاج کیا جاتا تھا، اب بھی جو قومیں مغرب کے زیر اثر نہیں ہیں ان میں یہی طریقہ مستعمل ہے۔ حضور پاکؐ کے زمانے میں ایک صحابی کو دل کا دورہ پڑا تو آپؐ نے اسے عجوہ کھجور کی گٹھلی کو پیس کر اسے کھجور کے ساتھ ملانے کی ہدایت کی اور یہ علاج موثر ثابت ہوا۔ آج بھی عجوہ پیسٹ دل کے مرض میں مفید ثابت ہورہا ہے اور لوگ اس سے رجوع کررہے ہیں جب کہ شہد، لہسن، ادرک اور سرکے پر مشتمل مشروب بھی بازار میں دستیاب ہے اور دل کے لیے مفید بتایا جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دل کی بیماری کا بائی پاس ہی واحد علاج نہیں ہے، دُنیا میں اور بھی علاج موجود ہیں جو سینے کو چاک کیے بغیر کیے جاسکتے ہیں، ہومیوپیتھک ادویات بھی اس مرض میں بہت کارگر ہیں۔ چینی علاج آکوپنکچر بھی اس حوالے سے بہت موثر مانا گیا ہے۔ ایک زمانے میں لوگ ڈاکٹروں کے مقابلے میں حکیموں سے علاج کرانا زیادہ پسند کرتے تھے اور مشرقی طب میں حکمت کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اسلامی ہند میں بہت سے نامور حکیم گزرے ہیں جو ماہر نباض بھی ہوا کرتے تھے اور نبض پر انگلی رکھتے ہی مرض کو پکڑ لیتے تھے۔ ہندوستان میں حکیم اجمل خان کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد حکیم محمد سعید (شہید) نے اس فن کو آگے بڑھایا اور قدرتی جڑی بوٹیوں پر تحقیق کا ادارہ قائم کیا۔ نئے اور پرانے مسیحاؤں کا تقابل درحقیقت دو تہذیبوں کا موازنہ ہے، نئی تہذیب نے سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری کے سبب پرانی تہذیب پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ ساری قدریں بدل گئی ہیں اب ڈاکٹروں کے مقابلے میں حکیموں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں اور ڈاکٹر ہیں کہ اِلّا ماشاء اللہ دولت کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔