کچھ علاج اس کا بھی اے ’’چُل زدگاں‘‘ ہے کہ نہیں

800

کسی مردِ دانا کا قول ہے کہ بے خبری بڑی نعمت ہے۔ پچھلے دو دِنوں سے ہماری ڈانوا ڈول سرکار یہ نعمت مفت میں بانٹ رہی ہے۔ خبروں کے تمام نجی چینلوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے اور چہرے پر ڈھاٹا ڈھانپ دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں صرف سرکاری ٹیلی وژن نغمہ سرا ہے۔ نغمہ سرا کیا؟ قصیدہ سرا ہے۔ اس غریب کی نوکری یہی ہے۔۔۔ ’’روز اِک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘‘ ۔۔۔ ویسے بھی ماہرینِ امراضِ قلب اپنے مریضوں کو ۔۔۔ سنا ہے کہ ۔۔۔ نسخے میں لکھ کر دیا کرتے تھے کہ اگر طمانیتِ قلب مطلوب ہے اور سکونِ دل محبوب ہے، تو ٹی وی نہ دیکھا کرو۔ اگر ٹی وی دیکھنے کے بہت ہی دھتّی ہو تو صرف پی ٹی وی دیکھا کرو، کہ ارضِ وطن میں ہر طرف چین ہی چین سنائی اور دکھائی دیا کرے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی نظر آئیں گی۔ خبرنامہ صرف ’’وزیر نامہ‘‘ ہوگا۔ طبعِ نازک پر گراں نہ گزرے تو اس سے بھی تفریح، بلکہ فرحتِ قلب حاصل کی جاسکتی ہے۔ بھانت بھانت کے وزیروں کی شکلیں دیکھنے سے (تمہارے) چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگے گی۔ اُن کی تقریریں اور بیانات سن کر کبھی قہقہہ لگاؤ گے، کبھی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاؤگے۔ القصہ مختصر پی ٹی وی کا خبرنامہ بھی گویا خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہردار ہے، بہ ورقِ نقرہ پیچیدہ۔
سچ پوچھیے تو پی ٹی وی کا خبرنامہ دیکھ کر ہمیں بھی سکونِ قلب حاصل ہوا۔ اسے سن کر نہ فشارِ خون بڑھتا ہے، نہ اختلاجِ قلب۔ خبر خواں خواتین و حضرات کا لہجہ بھی دیگر چینلوں کے صور پھونکنے والے چیخم دھاڑ لہجے سے بہت مختلف ہے۔ خبروں کے کسی بھی مشہور و معروف و مقبول چینل کے کسی بھی خبر خواں مرد یا خبرفشاں خاتون کو بوقتِ خبر خوانی سنیے اور دیکھیے تو یہی شبہ ہوگا کہ حضرت اصرافیل علیہ السلام ابھی ابھی صور پھونک کر تشریف لے جاچکے ہیں۔ اور اب حضرت عزرائیل علیہ السلام ایک ایک کرکے سب کا کام تمام کیے دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں ایک حشر سا برپا ہے۔ شورِ قیامت مچ رہا ہے اور نفسی نفسی کا غلغلہ ہے۔ سورج سوا نیزے پر آچکا ہے۔ اب کسی کی خیر نہیں ہے۔ خیر ہو بھی کیسے؟ کسی چینل سے خیر کی کوئی خبر آتی ہی نہیں۔ کسی خبر میں اگر خیر کا پہلو پائے جانے کا شبہ بھی ہوجائے تو فوراً کسی ماہر ’’تجزیہ گو‘‘ کو بلا کراُس سے ’’شرانگیزی‘‘ کروالی جاتی ہے۔ میرؔ صاحب بھی شایدہمارے اِن چینلوں ہی کے کسی کوچۂ خبرخوانی میں جا پہنچے تھے، تب ہی تو انہیں شیخ صاحب کو یہ نصیحت کرنے کی حاجت محسوس ہوئی:
اُس کے کوچے میں نہ کر شورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
اس کے برعکس پی ٹی وی کی خبر خواں خواتین کا لہجہ ’’لوری‘‘ والا ہوتا ہے۔ قوم کی قوم کو سُلادینے والی خبریں پڑھے جارہی ہیں اور گویا دل ہی دل میں کہے جارہی کہ:
بُری قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
پھر اُدھر، اکثر و بیش تر، سرکار کے کتابی چہروں کی لمحہ بہ لمحہ خبر دینے والی اور خبر لینے والی ’چہرہ کتاب‘ (Face Book) بھی سرکار نے بند کر دی ہے۔ اس سے ہر ہر ثانیے پر دل دہلا دینے اور طبیعت ہَولا دینے والی نِت نئی خبریں ’چسپاں‘ کرنے والے بھی بے دست و پا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسی خبررسانی میں ہمارے سماجی ذرایع ابلاغ، ملک بھر کے برقی ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں کہیں زیادہ برق رفتار واقع ہوئے ہیں۔ کوئی وقوعہ ہو جائے تو برقی ذرائع ابلاغ کو تو طرح طرح کے تردّد میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ نمائندہ بھیجنا پڑتاہے، رابطہ کرنا پڑتا ہے، شاد عظیم آبادی کا شعر پڑھنا پڑتا ہے:
کہاں سے لاؤں صبر حضرتِ ایوبؑ اے ساقی
خم آئے گا، صراحی آئے گی، تب جام آئے گا
مگر سماجی ذرائع ابلاغ کے سرگرم پاوندوں کو اتنا پاکھنڈ پالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔۔۔ ’’حاجت مشّاطہ نیست روئے دلارام را‘‘ ۔۔۔ اِدھر اپنے جوّال سے تصویر کَشی کی ، اُدھر وہیں کھڑے کھڑے فیس بُک پر خبر چسپاں کردی۔ تحقیق کی حاجت، نہ تصدیق کی ضرورت۔ جب تک اصل صورتِ حال واضح ہوگی، خبر کسی وبا کی صورت اختیار کرکے دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل چکی ہوگی۔ چسپاں کرنے کو کوئی خبر نہ ملی تو اپنے دسترخوان پر پڑی قاب کی گرما گرم بھاپ اُڑاتی لذیذ تصویر یا اپنے نومولود کے پوتڑوں کی رنگارنگ فوٹو ہی چِپکا دی، کہ ہم مزاح نگاروں کے طبیبِ ظریف ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تشخیص کے مطابق ، ہراُس ہاتھ میں ’’چُل‘‘ مچ رہی ہوتی ہے، جس ہاتھ میں جوّال مچل رہا ہوتا ہے۔ مگر اس کتاب (Face Book) کی غیرمعینہ مدّت تک کے لیے بندش سے تو مزید ’’چُل‘‘ مچنے لگی ہے۔ کچھ علاج اس کا بھی اے ’’چُل زدگاں‘‘ ہے کہ نہیں؟
ہے توسہی۔ ’’چُل زدگاں‘‘ نے Super_VPN ڈاؤن لوڈ کرکے مقفل چینلوں کے قفل بھی کھول لیے اور Face Book کے بند اوراق بھی۔ سرکار دربار کے خود کار وزرا سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے کہ موجودہ زمانے میں جو اطلاعاتی ٹکنالوجی کا زمانہ ہے، اطلاعات کے سیلاب کا دور ہے، کسی خبر کی راہ روکی نہیں جاسکتی۔ یوں بھی ’’بے خبری‘‘ پھیلانے سے ’’افواہیں‘‘جنم لیتی ہیں، جو اصل خبروں سے زیادہ خطرناک نتائج برپا کر سکتی ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ سے ایک فقرہ ملک بھر میں گردش کناں ہو گیا ہے کہ صرف فیض آباد کھولنے کے چکر میں سرکارنے پورا ملک بند کروا دیا۔ ایک پنجابی کہاوت کے مطابق رب اِس دُنیا میں جب کسی سزاوار کو سزا دینا چاہتا ہے تو خود آکر ڈنڈے نہیں رسید کرتا۔ فقط عقل خبط کر دیتا ہے۔ مت مار دیتا ہے۔ سو، وہ لوگ جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھا کرتے تھے اور اب بھی سمجھ رہے ہیں، وہ اپنے ہاتھوں اور اپنی باتوں سے اپنے گرد بننے والا گھیرا آپ تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ ایسے ایسے تیر چلا رہے ہیں جو پلٹ کر اُنھی کے سینوں پر آ رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ اِس دُعا کی قبولیت کا وقت ہے یا نہیں کہ خدا اُن کو عقل دے۔ یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ حق بات ہر گھیرا توڑ کر باہر نکل آتی ہے۔ یہ حق کی فطرت ہے۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ۔۔۔ ’’کس طرح نرم ملائم کونپل ۔۔۔ کھردرے سخت تنے چیر کے رکھ دیتی ہے!‘‘۔