دھرنا ختم، رپورٹ غائب 

346

ایک بار پھر ملک میں ہنگامہ برپا ہوا، دو تین ہفتے اسلام آباد عضو معطل بنا رہا راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگ بری طرح پریشان رہے۔ پھر عدالت کے نام پر آپریشن ہوا اور اس کی ناکامی کے بعد معاملات رینجرز کے حوالے کردیے گئے پھر آناً فاناً معاہدہ ہوگیا سب گھروں کو چلے گئے۔ بس 7 لوگ ناموس رسالتؐ پر قربان ہوگئے۔ درجنوں زخمی ہوگئے۔ ملک بھر میں درجنوں گاڑیاں موٹر سائیکلیں سرکاری گاڑیاں جلادی گئیں۔ حکومت کو محصولات کی مد میں 5 ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔ یہ تخمینہ تو اس نقصان کا ہے جو باقاعدہ درآمد و برآمد کا ہے اس کے علاوہ بھی تو اربوں روپے کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن ملک میں ہونے والے چھوٹے بڑے سانحات کی طرح اس مرتبہ بھی قوم حقائق سے بے خبر رہی۔ کئی روز سے راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پر بات ہورہی تھی کوئی کہہ رہا تھا کہ اگر یہ منظر عام پر آگئی تو بڑے بڑوں کے نام آئیں گے اس لیے اسے چھپایا جارہا ہے۔ پھر ایک خبر جاری کرادی گئی کہ رپورٹ کے مطابق سب ہی شامل تھے۔ یعنی حکومت، ارکان پارلیمنٹ اور پارلیمانی کمیٹی۔ لیکن رپورٹ ہے کہ شائع ہوکر نہیں دے رہی۔ پاکستان میں سانحات اور حادثات کے بارے میں رپورٹوں کی عدم اشاعت معمول ہے۔ خواہ یہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہو، کسی ریلوے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ۔ معاملات کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں رپورٹیں منظر عام پر نہیں آتیں سقوط ڈھاکہ کو اس سال 46 برس ہوجائیں گے لیکن جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پاکستان میں جاری نہیں ہوئی کیونکہ ملکی مفاد تھا۔ ملکی مفاد میں ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ شائع نہیں ہورہی۔ وزیر مملکت مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملکی مفاد میں الیکٹرانک میڈیا پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ ملکی مفاد کبھی ایسی رپورٹ کے عام کرنے میں استعمال نہیں ہوا۔ ہمیشہ رپورٹیں چھپانے، پابندی لگانے اور عوام کو حقائق سے محروم کرنے میں استعمال ہوا ہے۔ ایک بار پھر راجا ظفر الحق رپورٹ غائب اور دھرنا ختم ہوگیا۔ اب لوگ یہی کہیں گے کہ دھرنا ختم ہوگیا، معمولات زندگی بحال ہوگئے تو رپورٹ کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن جس طرح دھرنا قائدین کا یہ مطالبہ تھا کہ صرف قانون بحال ہونے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک شرارت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اس وقت تک دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ بقول جسٹس شوکت عزیز صدیقی وزیر قانون کی قربانی دیدی گئی لیکن انوشہ رحمن کو بچالیاگیا۔ جبکہ سینیٹر سراج الحق نے تو کہا ہے کہ راجا ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ میں بڑوں کے نام ہیں رپورٹ سامنے لائی جائے تاکہ عبرتناک سزا دی جائے۔ انہوں نے تشدد اور گرفتاریوں کو بھی حکومت کا غلط اقدام قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ معاہدے پرمکمل عملدرآمد کرے اس مرتبہ معاہدہ تو منظر عام پر آگیا ہے لیکن قوم رپورٹ بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس نے بڑی ہلچل مچادی ہے۔ ان ریمارکس سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ملک میں فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اپنوں کے درمیان کھینچا تانی کا فائدہ ہمیشہ غیر اٹھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج کے پاس بندوق ہوتی ہے اور وہ ایک منظم ادارہ ہے لیکن اس کا کام سیاست نہیں ہے۔ ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ جب ریاست پر برا وقت پڑتا ہے تو ’’مجبوراً‘‘ فوج کو سیاست میں آنا پڑتا ہے۔ یہ مجبوراً اس ملک میں کم از کم چار مرتبہ آچکا ہے اور ایک بار پھر مجبوراً کے حالات پیدا ہورہے ہیں یا کیے جارہے ہیں۔ لیکن یہ کام کرنے والے اور ایک دوسرے سے لڑنے والے صرف اپنے ادارے کا مفاد یا اپنے ادارے کے سربراہوں کے احکامات پر عمل کررہے ہیں جبکہ ان کے اس عمل سے ملک اور ادارے دونوں ہی کمزور ہورہے ہیں۔جسٹس شوکت صدیقی نے جو کچھ کہا ہے اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں کسی کو ملزم اور مجرم قرار دینے کی ضرورت نہیں لیکن آئی ایس آئی انٹیلی جنس رپورٹ حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ اور فوج کے ذمے داروں کو اپنی اپنی جگہ سوچنا ہوگا کہ ان کے دائرہ کار میں کیا کیا ہے اور ان کے اختیارات کہاں تک ہیں ان کے کون سے اقدام سے قومی مفاد متاثر ہوسکتا ہے۔ ہر ایک کو قومی مفاد میں مجبوراً اقدام کی اجازت اور عادت سے گریز کرنا چاہیے۔ آئین موجود ہے اسمبلیاں موجود ہیں جو کچھ کرنا ہے اس راستے سے کریں۔ کھینچا تانی سے کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس وقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا دھرنا ختم ہونے اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سے معاملات ختم ہوگئے یا احتجاج کا یہ سلسلہ ابھی اور آگے بڑھے گا، مزید استعفوں کا مطالبہ کیا جائے گا اور راجا ظفر الحق نے اپنی رپورٹ میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کو بھی لپیٹ میں لیا جائے گا۔ پاک فوج کے سالار نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات میں دو باتیں زور دے کر کہی ہیں۔ ایک یہ کہ راجا ظفرا لحق رپورٹ منظر عام پر لاکر ذمے داروں کو سزا دی جائے اور دوسرے یہ کہ مذاکرات کیے جائیں۔ یہ ہدایات ایک طرح سے دھرنا دینے والوں کے حق میں جاتی ہیں۔ مذاکرات تو پہلے بھی بے نتیجہ رہے اور ذمے داروں کو سزا دینے کا مطالبہ دھرنا دینے والوں کا ہے۔ فیض آباد کا دھرنا اپنے پیچھے تباہی اور بربادی چھوڑ گیا۔ شرکا کی طرف سے سرکاری اور عوامی املاک کو بری طرح نقصان پہنچایا اور جو معاہدہ ہوا ہے اس میں یہ شرط تسلیم کروائی گئی کہ ان کے ہاتھوں جو نقصانات ہوئے ہیں ان کا تاوان حکومت ادا کرے۔ اب کیا کوئی بھی دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوا لیا کرے گا؟ دھرنا دینے والے اس پر ضرور غور کریں کہ زاہد حامد کے استعفے کے علاوہ ان کے ہاتھ کیا آیا؟۔