سعود ساحر کے نام ایوارڈ۔۔۔ پریس کلب کا اعزاز

325

سید سعود ساحر ایک نام ہے، ایک کردار ہے، ایک امتیاز ہے اور ایک مقام، ان کی صحافت کا اپنا ایک طریقہ ہے، ظالم اور بے حس معاشرے کو چٹکیاں لینے کا، یہ طریقہ عام طور پر اردو ادب میں بہت معروف نہیں ہے، کیوں کہ اسے نبھانے میں بڑی دقت پیش آتی ہے اور مکالموں کو صحیح طور پر نہ لکھنا، بیانیہ کو ٹھیک طور سے نہ تراشنا کہانی کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔ سعود ساحر کی صحافت کا مرکزی کردار ہمیشہ مظلوم رہا ہے انہوں نے مظلوم اور معصوم کی ہمیشہ حمایت کی‘ اور ظلم کو پست درجے پر رکھا اور ڈرے ہوئے سماج میں جنم لینے والی سماجی اور سیاسی کہانیوں کو اپنا صحافتی بیانیہ بنایا، ایک کٹھن مسافت، پیچیدہ در پیچیدہ راستوں سے گزرتی ان کی صحافتی زندگی اپنے لہولہان پُرزوں کا بوجھ اُٹھائے آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہی ہے اگر کوئی انہیں خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہے تو اس کا کبھی حق ادا نہیں کرسکتا۔ سعود ساحر کو سمجھنے کے لیے ہمیں متوسط نہیں بلکہ غریب طبقے کی راکھ میں سے کسی دہکتے ہوئی چنگاری کو سمجھنا ہوگا ان کے قلم نے جس موضوع کا بھی انتخاب کیا، اسے سرکٹی کہانی کی طرح نہیں چھوڑا بلکہ قاری کو سیاق و سباق پوری طرح سمجھایا۔
پچاس سالہ صحافتی خدمات کے اعتراف میں پریس کلب نے انہیں ایک تقریب میں ایوارڈ دیا‘ اس ایوارڈ کے لیے سعود ساحر کے نام کی مہر لگانے والوں میں شکیل انجم‘ افضل بٹ‘ فاروق فیصل خان‘ طارق چودھری‘ اسلم خان اور دیگر تمام سینئر ارکان پریس کلب شامل تھے ان سب کی رائے یہ تھی کہ ایوارڈ کے سب سے زیادہ مستحق سعود ساحر ہی ہیں آج کل وہ اس طرح متحرک نہیں جس طرح کا تحرک ان کی پہچان ہے لیکن بوجھل اور نڈھال نہیں ہیں ان کے سینے پر بہت سے تمغے سجے ہوئے ہیں‘ رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش کی اور ایثار اور قربانی کی انمول داستانیں رقم کیں وہ زندگی میں بڑے سادہ ہیں اور ہر بات سیدھی کرنے کے عادی ہیں‘ سیاسی لحاظ سے پاکستان پرست ہیں‘ اس ملک سے انہیں بے پناہ محبت ہے علمی شخصیات میں انہیں سید مودودیؒ ‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ نسیم انور بیگ، محترم مجید نظامی سے لازوال عقیدت ہے ایسی انمول ہستیاں اب کہاں ملتی ہیں یہ سب ان کی چاہت کا مرکز تھے، سید مودودی نے انہیں محب وطن صحافت کا ہیرو اور سرخیل قرار دیا تھا جب صحافت میں آئے تو انہیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ انہیں ملک میں ممتاز اور اعلیٰ ترین صحافتی مقام ملے گا‘ یہ سب کچھ انہیں ان کی محنت اور پاکستان سے محبت‘ دین سے عقیدت اور اپنے پیشے سے سچی لگن کی وجہ سے ملا ہے ملکی صحافت میں کوئی ایسا سینہ نہیں جس پر وہ تمغے سجے ہوں جو صرف سعود ساحر کے لیے ہیں‘ وہ پروفیشن کے اعتبار سے بہت سخت گیر ہیں مگر جب بھی کوئی اسٹوری بریک کی تو ایک دھماکا ہوا‘ لیکن کبھی مغرور نہیں ہوئے‘ افتخار تاری کی دلائی کیمپ والی خبر بریک تو بھٹو کے سیاسی گناہوں کا پورا دفتر ہی کھول کر رکھ دیا بھٹو حکومت اس طرح چیخی تھی جیسے کوّے ہم آواز ہو کر چیخ و پکار مچاتے ہیں‘ ان کے ٹریک ریکارڈ پر ایسی کوئی ایک خبر نہیں ہے بلکہ درجنوں‘ سیکڑوں خبریں ہیں یوں کہنا چاہیے کہ خبر ان کے دروازے کی چوکھٹ پر خود آجاتی ہے‘ چاہتے تو بہت کچھ کما سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر پیش کش کو دنیا کے کچرے سے بھی زیادہ حقیر سمجھا ان کے سامنے کوئی بھی طاقت ور شخص بھی اپنی کسی بھی پیش کش کی گٹھری کھولنے کی جرأت نہیں کرسکا ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ دیکھی کہ لانگ ڈرائیو پر جایا جائے یہی ان کی سب سے بڑی تفریح ہے۔
بلا شبہ سعود ساحر نے اپنی صحافتی زندگی پُل صراط پر چل کر گزاری ہے انہوں نے اپنی خبر کے ذریعے ہر مظلوم کے لیے ایسی آہ و بکا کی کہ اس کی حرارت سے ظلم کا ہر دروازہ پگھل گیا انہیں ایوارڈ دینے پر پریس کلب کی منتخب باڈی واقعی خراج تحسین کی مستحق ہے یہ فیصلہ خود پریس کلب اور اس کی منتخب باڈی کے لیے اعزاز سے کم نہیں‘ اگر ملک کی سیاست اور صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پڑھا جائے تو وہ کچھ نہیں ملتا جو تاریخی سیاسی‘ صحافتی اور پارلیمانی واقعات ان کے سینے میں دفن ہے‘ جن کے یہ عینی شاہد بھی رہے‘ جہاں تک لکھنے کی بات ہے‘ سیاسی موضوعات پر انہوں نے اتنا لکھا اور بہت خوب لکھا کہ کسی کم ہی لکھا ہوگا‘ لکھنے کے ہنر سے ان کی واقفیت اور عبور کم ہی دیکھا ہے جو کسی پر تنقید کی تو ایسے الفاظ چنے کہ جس سے اس کی ہتک عزت مجروح نہ ہو‘ وہ بیک وقت کالم نگار بھی ہیں‘ رپورٹر بھی ہیں‘ مضمون نگار بھی ہیں‘ جس طرح زبان کی آج کل بے دریغ ایسی تیسی ہورہی ہے‘ سعود ساحر کے قلم سے کبھی ایسے لفظ نہیں نکلے۔ انہیں مطالعے کا بے حد شوق ہے اسی لیے تو صحافت کی گاڑی کی عقبی نشست پر نہیں بلکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے نظر آتے ہیں‘ جب بھی جو بھی لکھا‘ کبھی خام مال نہیں خریدا‘ جملوں کی کاٹ‘ لفظوں کے انتخاب میں کوئی ان کا ثانی نہیں‘ وہ صحافتی زبان کی زیر‘ زبر اور پیش سے واقف ہیں لیکن وہ آج کل کے اینکرز کی طرح اسٹارز اور عقلِ کل نہیں ہیں‘ اور نہ کہلوانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں علم ہے صحافت کیا ہے۔
مت سہل جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کھو گیا ہوں غموں کے صحرا میں
توں کہاں ہے ذرا پکار مجھے