جماعت اسلامی بنگلا دیش اور کلبھوشن

367

بنگلا دیش میں پھانسیوں کے سلسلے کو ہمیں بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ فلسطین میں حماس کامیاب ہوئی تو پوری مغربی دنیا میں تھرتھری سی محسوس ہونے لگی اس کو اقتدار تو دیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد محلاتی سازشوں کی کارستانیوں کے ذریعے اسے اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ مصر میں اخوان المسلمین کامیاب ہوئی اس کی حکومت کو دو سال بھی نہیں چلنے دیا گیا کہ ایک فوجی جنرل سیسی نے فوجی انقلاب کے ذریعے اخوان کا تختہ الٹ دیا، اخوان المسلمین کے سربراہ جناب مرسی سمیت ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا مظاہرین کو ٹینکوں سے کچلا گیا سیکڑوں افراد کو معمولی جرم میں پھانسی کی سزائیں دے دی گئیں۔ جہاں جہاں اسلامی تنظیمیں کچھ اثر و رسوخ رکھتی ہیں وہاں پر انہیں سختی سے کچلا جارہا ہے اسی دوران صوفیانہ اسلام کے عنوانات سے بحث کے دروازے کھول دیے گئے یعنی آپ ایک گوشے میں بیٹھ کر اللہ ہو اللہ ہو کی صدائیں بلند کرتے رہیں باہر کی دنیا میں طاغوتی قوتیں دنیا پر حکمرانی کرتی رہیں انہیں اس طرح کے اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
بنگلا دیش میں چوں کہ جماعت اسلامی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے بلکہ اب تو بعض سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اگر آج وہاں انتخابات ہو جائیں تو جماعت اسلامی دوسر بڑی پارٹی بن کر سامنے آسکتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کی جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو ویسے تو پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کی ماں کہلاتی ہے لیکن چوں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کا سیاسی گراف اتنی بلندیوں پر نہیں ہے جس سے کوئی خطرہ محسوس کیا جاسکے اس لیے شاید یہاں پر ویسی صورت حال نہیں ہے جیسی کہ دنیا کے اور ممالک میں ہے۔ پوری دنیا میں سیاسی اسلام کو دیوار سے کیوں لگایا جارہا ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب روس کا زوال ہوا تو مغربی تھنک ٹینک اور امریکا کے دانشوروں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ اب مغربی تہذیب کا مقابلہ اسلامی تہذیب سے ہوگا یعنی ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اب ہمارا اصل حریف اسلام ہوگا کمیونزم کے نظریے کو تو ہم شکست فاش دے چکے ہیں۔ ان سختیوں کا شاید ایک مقصد یہ بھی ہو کہ مسلمان تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت داعش اور طالبان جیسی انتہا پسند تنظیموں کے جال میں پھنس جائیں۔
پاکستان میں بھی اس پر بہت تیزی سے اور خاموشی سے کام ہو رہا ہے پاکستان اور چین کے تعلقات اور سی پیک منصوبوں کی وجہ سے بھی ہمارے دشمن ہمیں ہر طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بلوچستان میں ہر روز کی بنیاد پر پولیس افسران کو قتل کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال اتنی مخدوش اس وجہ سے ہوئی ہے امریکا نے بھارت کو افغانستان پیر جمانے کا موقع دینے کے بجائے اپنے پورے وجود سے چمٹ جانے کا موقع فراہم کیا اور بھارت کے کئی قونصلیٹ دفاتر قائم جہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اس وقت امریکا، بھارت اور افغانستان پاکستان کی سالمیت کے خلاف متحد ہو کر منصوبہ بندی کے تحت کام کررہے ہیں۔ پچھلے برس بھارتی خفیہ ایجنسی کے ٹاپ کلاس آفیسر کلبھوشن کو گرفتار کیا گیا اس نے ان تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کی تفصیلات بتائیں جو اس نے پاکستان میں کی تھیں، جن میں سیکڑوں پاکستانیوں کی معصوم جانیں ضائع ہوئیں اس کو فوجی عدالت نے موت کی سزا دی ہے۔
اب آپ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتی اقدامات پر ذرا غور کیجیے کلبھوشن نے ریاست پاکستان کے خلاف کام کیا سیکڑوں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا کروڑں بلکہ اربوں روپے کا مالی نقصان کیا اس مجرم کو بچانے کے لیے بھارت عالمی عدالت میں چلا گیا۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان کے وہ محب وطن بنگالی جو 1971میں ریاست پاکستان کی مدد کے لیے اپنی جانوں کو ہتھیلی میں رکھ کر میدان میں آئے اور پاکستانی فوج کی حکومت پاکستان کی مدد کی، جس وقت یہ حضرات پاکستان کی مدد کررہے تھے کہیں بھی بنگلا دیش کا وجود نہیں تھا دنیا کے نقشے میں اس وقت مشرقی پاکستان پاکستان کا حصہ تھا، اور انہوں نے پاکستان کے لیے کام کیا تھا آج جب بنگلا دیش کی حکومت ایک ایسے جعلی ٹروبیونل کے ذریعے موت کی سزا دلوائی جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب کیا پاکستانی حکومت کی یہ ذمے داری نہیں بنتی ہے کہ جس طرح بھارت اپنے ایک مجرم کو بچانے کے لیے عالمی عدالت میں گیا ہے تو پاکستان کو بھی اپنے معصوم اور بے گناہ محب پاکستانیوں کی جان بچانے کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ جب کہ پاکستان کے پاس بھارت پاکستان اور بنگلا دیش کا سہ فریقی معاہدہ بھی موجود جس میں یہ بات طے ہو گئی تھی اب یہ ممالک 1971کے حوالے سے ایک دوسرے پر کوئی مقدمے بازی نہیں کریں گے اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی مجرمانہ خاموشی آج کے پاکستانی نوجوانوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اب اگر خدا نہ خواستہ ملک ایسی کوئی مصیبت دوبارہ آئے تو حکومت پاکستان کے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان کو بھی اس اشو پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس طرح ہم نے روہگنیا مارچ کیا تھا اسی طرح ہمیں بنگلا دیشی حکومت کی متعصبانہ کارروائیوں کے خلاف بھرپور مارچ کرنا چاہیے اس کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے اور اس دن پوری دنیا میں اس اشو پر مظاہرے کیے جائیں۔ ترکی حکومت کے پاس وفود بھیجے جائیں ابھی تک اس مسئلے پر ترکی کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا حالاں کہ اس سے قبل ایک رہنما کی پھانسی کے موقع پر ترکی نے بنگلا دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا، بہر حال ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں ہمیں اس مسئلے پر پوری قوت سے آواز اٹھانا چاہیے۔