میجر اسحاق شہید

468

میجر اسحاق پلیز مجھے معاف کردینا۔ بدھ 22نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں سرچ آپریشن کے دوران تمہاری شہادت کی خبر ملتے ہی مجھے تم پر کالم لکھ دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس میں نہیں لکھ سکا۔ تب سے میں ہر روز لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، تمہاری مسکراتی تصویر دیکھتا ہوں تو پورے آسمان کی تابندگی اور پھولوں کے رنگ پھیکے نظر آتے ہیں۔ خاکی وردیاں زیب تن کرنا کتنا آسان لگتا ہے۔ لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں یہ وردی پہننے کا مطلب ہے زندگی کی مسکراہٹوں کو خون رنگ کرنا۔ اہل وطن کی خوشیوں کے لیے جسم وجان میں جگہ بناتی گولیوں کو خوش آمدید کہنا۔ خوش آمدید ہی نہیں کہنا، سہنا ہی نہیں، ان کی دعا کرنا۔ تمہاری والدہ کہتی ہیں تم جب بھی کسی مشن پر جاتے تھے تو اپنے گھر والوں اور دوستوں سے اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ میرے لیے شہادت کی دعا کرنا۔ آنکھیں بوجھل ہیں، آنسوؤں کا ایک منہ زور ریلا مجھے بہا کر لے جاتا ہے۔ تم ہی بتاؤ ایسے میں کیسے لکھا جاسکتا ہے۔
میجر اسحاق کے تابوت پر ان کی اہلیہ کی نڈھال، پتھرائی ہوئی، غمزدہ آنکھوں سے شیشے کو سہلاتی ہوئی تصویر دیکھیں تو زندگی سینے میں رکنے لگتی ہے۔ وہ تصویر جیسے کہہ رہی ہو آنکھیں کھولو مجھے تمہاری آنکھوں میں اپنا انتظار دیکھنا اچھا لگتا تھا، آج دیکھو میری آنکھوں میں تمہارا انتظار ہے۔ تمہارے لمس کو محسوس کرنے کی آرزو میں، میں تمہاری چیزوں کو بار بار چھوتی ہوں۔ کاش میں ایک بار پھر تمہیں چھو سکتی۔ میری فریاد پر کُن کہہ دے میرے مولا۔ میں کمرے میں جاتی ہوں تو سلیقے سے رکھی ہوئی چیزیں مجھے بری لگتی ہے۔ تمہیں چیزیں بکھیرنے کی عادت تھی۔ تمہاری بکھری ہوئی چیزیں سمیٹتے سمیٹتے میں تھک جاتی تھی۔ آؤ چیزوں کو پھر سے بکھیر دو۔ میں انہیں سمیٹ کر پھر سے تھکنا چاہتی ہوں اور وعدہ تم سے ناراض ہوں گی نہ شکوہ کروں گی۔ تمہاری تصویر پر پڑی گرد مجھے برداشت نہیں ہوتی۔ تم منوں مٹی تلے ہو۔ کیسے صبر کروں۔ تم گھر میں گھستے ہی مجھے زور زور سے پکارتے تھے آج میں تمہیں زور زور سے پکارنا چاہتی ہوں۔ آجاؤ۔
تو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمان وفا اور
یہ عہد کہ تاعمر رواں ساتھ رہوگے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہل صفا اور
میجر اسحاق کی اور ان کی گود میں بیٹھے ایک سالہ بیٹے کی مسکراہٹ، دونوں کی مسکراہٹیں ایسی یکساں ہیں جیسے وہ ایک ہی روح اور ایک ہی جسم ہوں۔ اس مسکراہٹ میں چھپی محبت کی گہرائی، اس شفقت کی حدود کا تعین کون کرسکتا ہے جس شفقت سے باپ بیٹے کو گود میں لیے بیٹھا ہے۔ ایسا لگتا ہے میجر اسحاق بچے سے کہہ رہے ہیں لو بھئی آج ہم ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ آج ہم تمہارے ساتھ کھیلیں گے۔ اس احساس سے باپ اور بیٹے دونوں کو گد گدی ہورہی ہے۔ ڈیوٹی کے دوران جب میجر اسحاق تاروں پر بیٹھی ہوئی چڑیوں کو سوتا دیکھتے ہوں گے تو انہیں بستر پر سوتا ہوا بیٹا کتنا یاد آتا ہوگا۔ مائیں ہی نہیں باپ بھی اس رومال کو نہیں دھوتے جس میں ان کے بچوں کے آنسو جذب ہوں۔ بچوں کے چہروں پر چمکتی خوشیاں اور معصومیت ہی ہماری دنیا کی حقیقی خوب صورتی ہیں۔ باپ بیٹوں کے جوان ہونے کی آرزو میں زندہ رہتے ہیں تاکہ سینہ پھلا کر کہہ سکیں
ہمیں حریفوں کی تعداد کیوں بتاتے ہو
ہمارے ساتھ بھی بیٹا جوان رہتا ہے
لیکن میجر اسحاق اپنے بیٹے کے بڑا ہونے کا انتظار کیے بغیر چلے گئے۔
یہ میجر اسحاق جیسے سپوتوں کی قربانیاں ہیں کہ پاک آرمی کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ پاک فوج کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پاک فوج پاکستان کے عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی فوج سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں اور پاک فوج بھی اپنے عوام کے لیے ایسی محبت رکھتی ہے۔ ملک میں سیلاب آئیں، زلزلہ آئے، امن وامان کی صورت حال خراب ہو پاکستان کے لوگوں کی نظریں اپنی افواج کی راہ تکتی ہیں۔ پاک فوج نے ان معاملات میں کبھی اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کیا۔ محبت کا یہی تعلق ہے جب پاک فوج کے سپوتوں کی قربانیوں اور شہادتوں کی خبریں آتی ہیں تو ایک طرف قوم کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے، مبارکبادوں کا شور اٹھ جاتا ہے تو دوسری طرف ان جوانوں کی یادیں قوم کو افسردہ کردیتی ہیں۔ میجر اسحاق کی اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ مسکراتی ہوئی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پوری قوم کے سینے کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہوگئیں۔ اور جب ان کی اہلیہ کی تابوت کے شیشے پر جھکی تصویر سامنے آئی تو ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ ان کے چہرے پر تقدیس اور بے پناہ غم نے قوم کو رلادیا۔
پاک فوج کے جوان بہترین عسکری صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ ان کی شجاعت اور دلیری کا دنیا اعتراف کرتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ قوم اپنی فوج کی بہترین صلاحیتوں کے نتائج سے محروم ہے۔ جس قوم کو ایسی دلیر فوج میسر ہو اور پھر بھی ستر برس سے کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہو۔ بھارتی درندہ صفت افواج انتہائی سفاکی اور بے دردی سے کشمیر میں ہمارے نوجوانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، پیلٹ گنوں سے ہزاروں لوگوں کو بینائی سے محروم کرچکے ہیں۔ ہماری ہزاروں باعصمت بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہورہی ہیں، ہزاروں عورتوں نے وہاں بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھ لی ہے، ہزاروں کشمیری عقوبت خانوں میں سڑرہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے جب چند قدم کے فاصلے پر ان کے دلیر بھائی، دنیا کے بہترین سپاہی اسلحہ سے لیس کھڑے ہیں۔ جس قوم کو ایسی زبردست فوج میسر ہو اور امریکا ڈومور کا مطالبہ ایسے کرتا ہو جیسے اپنے زر خرید غلاموں کو حکم دے رہا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری سول اور فوجی قیادت نے قوم کے زبردست سپوتوں کو ایک بے مقصد جنگ کا ایندھن بنادیا ہے۔ ایک ایسی جنگ میں لڑنے پر مجبور کردیا ہے جو دراصل ہماری جنگ ہے ہی نہیں۔ جس فوج کی شناخت ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے اسے کافروں کے ہاتھ مضبوط کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ہماری بہادر افواج اپنے اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتیں لیکن یہ ایسے لوگوں کی ماتحتی میں ہیں جو امریکا سے ڈرتے ہیں۔ جن کا آقا امریکا ہے۔ امریکا انہیں جو حکم دیتا ہے وہ پاک فوج کے غیور نوجوانوں کو اس کی تعمیل پر لگا دیتے ہیں۔ اس بے چہرہ جنگ میں کب تک ہم اپنے جوانوں کو گنواتے رہیں گے، کب تک پھولوں اور کلیوں کو یتیم اور بیوہ کرتے رہیں گے۔ کب تک۔
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)