دھرنے کے پیچھے کون ؟

905

22دن تک لاکھوں افراد کو محصور رکھنے اور کاروبار زندگی کو مفلوج کرنے کے بعد فیض آباد دھرنا تو ختم ہوگیا تاہم دھرنے کا آغاز کرنے والے اشرف جلالی مزید کئی مطالبات لیے لاہور میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔ اشرف جلالی نے خادم حسین سے پہلے ایک ہفتے تک اسی مقام پر دھرنا دیا تھا تاہم ملتوی کر کے اٹھ گئے تھے اور ان کی جگہ خادم حسین ر ضوی نے لے لی۔ انہوں نے حکومت کو جس طرح سر جھکانے پر مجبور کیا اسے دیکھ کر تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی چیئرمین کو احساس ہوا کہ انہو ں نے موقع گنوا کر ساری مقبولیت خادم حسین کی جھولی میں ڈال دی۔ چنانچہ اب انہوں نے مال روڈ لاہور کے اہم مقام چیئرنگ کراس پر ڈیرے ڈال دیے ہیں اور دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ گویا اب پنجاب حکومت کا امتحان ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کے تعاون یا چشم پوشی سے دھرنے کے شرکا فیض آباد تک پہنچے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے تو نہایت سادگی سے کہہ دیا کہ ہم سمجھے وہ لوگ دعا کرکے اٹھ جائیں گے۔ دھرنے کے شرکا کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ ان سے بھی استعفا طلب کیا جارہا ہے۔ فیض آباد سمیت کراچی اور متعدد دیگر شہروں میں ناموس رسالت کے تحفظ کے نام پر دھرنے دیے گئے جن سے رسولؐ کی امت پریشان ہوتی رہی۔ فیض آباد دھرنے کے سرخیل خادم حسین مجمع میں گندی گندی گالیاں دیتے رہے اور یہ گالیاں معزز ججوں کوبھی دی گئیں۔ اس کے باوجود حیرت ہے کہ کئی علما نے دھرنوں کی تائید کی حتیٰ کہ سیال شریف کے گدی نشین حمید الدین سیالوی نے بھی دھرنوں کو سراہا اور ان کے ایما پر جنوبی پنجاب کے کئی وزرا اور ارکان اسمبلی استعفے دینے پر تیار ہیں ۔ اس کا بڑا نقصان مسلم لیگ ن کو پہنچے گا جس سے اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی تشکیل کا مقصد سیاسی اور پنجاب میں ن لیگ کی مقبولیت کو دھچکا پہنچانا ہے۔ مقتدر ادارے نہیں چاہتے کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی ایک پارٹی اتنی طاقت ور ہو کہ پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرسکے۔ ملی مسلم لیگ بھی اچانک ہی سامنے آئی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف بھی پیچھے رہ گئی ہے اور پیپلز پارٹی کے تو پنجاب میں ابھی خدوخال ہی واضح نہیں ہوئے وہ سندھ تک محدود ہے اور یہیں تک رہے گی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں امکان نہیں کہ تحریک انصاف حکومت بنا سکے۔ وہاں جمعیت علما اسلام اور اے این پی سے سخت مقابلہ ہوگا۔ فیض آباد دھرنے سے دو باتیں بہت واضح ہوئی ہیں ۔ ایک تو مسلم لیگ ن کے اندر اختلافات دوسرے سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں کشیدگی۔ یہ دونوں ہر گز بھی ایک صفحے پر نہیں ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے فوج کا نام لیے بغیر کہا کہ ادارے ایگزیکٹو کو موقع نہیں دیں گے تو کارکردگی بہتر نہیں ہوسکتی۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے پاکستان آج تک مضبوط جمہوری ریاست نہ بن سکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست اور فوج ایک دوسرے کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔ لیکن پروفیسر احسن اقبال سے یہ سوال کرنا تو جائز ہوگا کہ ایگزیکٹو یعنی سول حکومت کو اور کتنا موقع چاہیے تھا اور 22دن کے دھرنے میں احسن اقبال یا ان کی حکومت نے کیا کرلیا۔ انہوں نے آپریشن کے پہلے ہی دن ہاتھ کھڑے کردیے تھے کہ ان کا کچھ لینا دینا نہیں ۔ نا اہل نوازشریف نے بھی وفاقی وزیر داخلہ پر برہمی کا اظہار کیا ہے کہ دھرنا دینے والوں کو کون مددفراہم کررہا تھا اور آپریشن کیوں ناکام ہوا۔ لیکن احسن اقبال تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آپریشن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، یہ دوسرے اداروں یعنی فوج نے کیا۔ مگر 22دن تک کیا ہوا ؟ دھرنا دینے والوں کی مکمل ناکہ بندی کردی جاتی تو معاملہ جلد ختم ہو جاتا لیکن اس پر بھی حقوق انسانی کے دعویداروں نے شور مچا دیا کہ کھانا، پانی بند کرنا حقوق انسانی کے خلاف ہے۔ لیکن کیا وہ لاکھوں شہری جو محصورتھے، بچے اسکول نہیں جارہے تھے، ایمبولینسیں تک پھنسی ہوئی تھیں، ان کے کچھ حقوق نہیں ۔ کراچی میں گزشتہ ہفتے کے دن راستے بند کرنے سے لاکھوں شہری پھنس گئے، کئی تقریبات ملتوی ہوگئیں، بدترین ٹریفک جام رہا لیکن حقوق انسانی کے پاسدار اور علم بردار خاموش رہے۔ یہ کام تحفظ ناموس رسالت کے نام پر ہوا۔ نوازشریف کے اس سوال میں کہ دھرنا دینے والوں کی پشت پناہی کون کررہا تھا، جواب بھی پوشیدہ ہے۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے جناب جسٹس شوکت صدیقی نے گزشتہ پیر کو دھرنے کے حوالے سے بہت سخت تبصرہ کیا ہے اور کسی حد تک اس سوال کا جواب بھی دیا ہے کہ دھرنے کے پیچھے کون تھا۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ ادارے ریاست کے خلاف کام کررہے ہیں ، فوج حد میں ر ہے، قوم کے ساتھ مذاق بند کیا جائے۔ سازش کے تحت حکومت کو ناکام بنایا گیا، ایگزیکٹو ( حکومت) کا حکم ماننے کے بجائے آرمی چیف ثالث بن گئے، ثابت ہوگیا کہ پروجیکٹ کس کا تھا، آپریشن رد الفساد والوں کو فیض آباد نظر نہیں آیا؟ جسٹس شوکت صدیقی نے فوج پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے مزید کہا کہ فوجی کیوں خوامخواہ ہیروبنے پھرتے ہیں، سیاست کا شوق ہے تو نوکری چھوڑ دیں۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ قادیانیوں کو ڈارلنگ کس نے بنایا۔ انہوں نے وزیر داخلہ کی بھی سرزنش کی۔ اتنے سخت ریمارکس دینے کے بعد جسٹس شوکت نے امکان ظاہر کیا کہ انہیں مار دیا جائے گا یا لاپتا کردیا جائے گا، زندگی خطرے میں ہے، میں نے وہی کہا جو آئین کہتا ہے۔ زندگی کو لاحق خطرے کی بات کر کے انہوں نے اپنی زندگی کو محفوظ کرلیا کیوں کہ ایسے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا جس سے ہاتھ ڈالنے والے بے نقاب ہو جائیں۔ جسٹس صدیقی نے یہ واضح نہیں کیا کہ قادیانیوں کو کس نے ڈارلنگ بنایا ہوا ہے۔ اس عرصے میں کچھ ٹی وی چینلز نے نواز شریف کی پرانی تقریر بھی نشر کی جس میں نوازشریف کہہ رہے ہیں کہ قادیانی میرے بھائی بہن ہیں ۔ اب بہن بھائیوں کی حفاظت کرنا تو ان پر لازم ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ حلف نامے میں تبدیلی کر کے یہ ہنگامہ کیوں برپا کیا گیا۔ کیا اس کا کوئی خاص مقصد تھا؟ اور وہ مقصد کیا تھا۔ سو جوتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی کھائے۔ آخر کار ترمیم منسوخ کرنا پڑی۔ جو بھی ذمے دار ہیں ان سے پوچھا تو جائے کہ انہوں نے کیا سوچ کر ایسا کیا۔ راجا ظفر الحق کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی لیکن اس کے جو حصے سامنے آئے ہیں وہ مبہم ہیں اور اس میں وزیر قانون زاہد حامد کو تنہا ذمے دارقرار نہیں دیا گیا۔ زاہد حامد نے تو استعفا دے دیا اور دھرنے والوں نے یہ یقین بھی دلایا کہ ان کے خلاف فتویٰ جاری نہیں کیا جائے گا ورنہ انہیں خدشہ تھا کہ انہیں گورنر پنجاب سلمان تاثیر بنا دیا جائے گا۔ جسٹس شوکت نے تحریک لبیک سے کیے جانے والے معاہدے پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیے، اپنی ایک بات بھی نہیں منوائی، ججوں کو گالیاں دی گئیں اس پر معافی معاہدے میں کیوں شامل نہیں ۔ عدالت نے اس معاہدے پر ایک حاضر سروسر جرنیل کے دستخط پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ وہ کہاں سے بیچ میں آگئے۔ ان کا تعلق معروف انٹیلی جنس ادارے سے ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ان کا نام بطور ثالث استعمال ہوا۔ معاہدے میں ان انتظامی افسران کے خلاف اقدامات کی بات کی گئی ہے جو 25نومبر کو ہونے والے آپریشن کے ذمے دار تھے۔ ان کے بارے میں تحقیقاتی بورڈ 30دن میں رپورٹ دے گا لیکن ان درجنوں سیکورٹی اہلکاروں کے حوالے سے معاہدے میں کچھ نہیں جو دھرنا دینے والوں کے تشدد سے زخمی ہوئے اور جو اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر کارروائی کررہے تھے۔ املاک کو نقصان پہنچانے اور لوگوں کو زخمی کرنے والوں کے لیے بطور انعام فوج نے ہزار، ہزار روپے تقسیم کر کے حوصلہ افزائی بھی کی۔ یہ کام بھی پہلی بار ہوا ہے۔