آداب ِ زندگی

246

مولانا یوسف اصلاحی
حضرت ابو ہریرہ ؓکا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اپنے گھوڑے کی باگیں پکڑے ہوئے خدا کی راہ میں اس کو اڑاتا پھرتا ہے، جہاں کسی خطرے کی خبر سنی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوڑ گیا، قتل اور موت سے ایسا بے خوف ہے گویا اس کی تلاش میں ہے‘۔ (مسلم)
(5) خواتین بھی سخت کوشی اور محنت و مشقت کی زندگی گزاریں۔ گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کریں، چلنے پھرنے اور تکلیف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں ، آرام طلبی، سستی اور عیش کوشی سے پرہیز کریں اور اولاد کو بھی شروع سے سخت کوش، جفاکش اور سخت جان اٹھانے کی کوشش کریں ۔ گھر میں ملازم ہوں تب بھی اولاد کو بات بات میں ملازم کا سہارا لینے سے منع کریں اور عادت ڈلوائیں کہ بچے اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔ صحابیہ عورتیں اپنے گھروں کا کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ باورچی خانے کا کام خود کرتیں، چکی پیستیں، پانی بھر کر لاتیں، کپڑے دھوتیں، سینے پرونے کا کام کرتیں اور محنت مشقت کی زندگی گزارتیں اور ضرورت پڑے پر میدان جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور پانی پلانے کا نظم بھی سنبھال لیتیں۔ اس سے خواتین کی صحت بھی بنی رہتی ہے، اخلاق بھی صحت رہتے ہیں اور بچوں پر بھی اس کے اچھے اثرات پڑتے ہیں ۔ اسلام کی نظر میں پسندیدہ بیوی وہی ہے جو گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہو، اور جو شب و روز اس طرح اپنی گھریلو ذمے داریوں میں لگی ہوئی ہو کہ اس کے چہرے سے محنت کی تکان بھی نمایاں رہے اورباورچی خانے کی سیاہی اور دھوئیں کا ملگجا پن بھی ظاہر ہو رہا ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’ میں اور ملگجے گالوں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔ (آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے ہوئے بتایا)‘۔
(6) سحر خیزی کی عادت ڈالیے۔ سونے میں اعتدال کا خیال کیجیے نہ اتنا کم سوئیے کہ جسم کو پوری طرح آرام و سکون نہ مل سکے اور اعضا میں تکان اور شکستگی رہے اور نہ اتنا زیادہ سوئیے کہ سستی اور کاہلی پیدا ہو۔ رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کی عادت ڈالیے۔
صبح اٹھ کر خدا کی بندگی بجا لائیے۔ اور چمن یا میدان میں ٹہلنے اور تفریح کرنے کے لیے نکل جایئے۔ صبح کی تازہ ہوا صحت پر بہت اچھا اثر ڈالتی ہے۔ روزانہ اپنی جسمانی قوت کے لحاظ سے مناسب اور ہلکی پھلکی ورزش کا بھی اہتمام کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ کی تفریح کو پسند فرماتے تھے اور کبھی کبھی خود بھی باغوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کے بعد جاگنے اور گفتگو کرنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا: ’’عشا کے بعد وہی شخص جاگ سکتا ہے جس کو کوئی دینی گفتگو کرنی ہو یا پھر گھر والوں سے ضرورت کی بات چیت کرنی ہو‘‘۔
(7) ضبطِ نفس کی عادت ڈالیے۔ اپنے جذبات، خیالات ، خواہشات اور شہوات پر قابو رکھیے۔ اپنے دل کو بہکنے، خیالات کو منتشر ہونے اور نگاہ کو آوارہ کرنے سے بچایے۔ خواہشات کی بے راہ روی اور نظر کی آوارگی سے قلب و دماغ، سکون و عافیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور ایسے چہرے جوانی کے حسن و جمال ، ملاحت و کشش اور مردانہ صفات کی دلکشی سے محروم ہو جاتے ہیں اور پھر وہ زندگی کے ہر میدان میں پست ہمت، پست حوصلہ اور بزدل ثابت ہوتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ آنکھوں کا زنا ،بدنگاہی اور زبان کا زنا بے حیائی کی گفتگو ہے۔ نفس تقاضے کرتا ہے اور شرم گاہ یا تو اس کی تصدیق کردیتی ہے تکذیب‘‘۔
کسی حکیم و دانا نے کہا ہے : ’’ مسلمانو! بدکاری کے قریب نہ پھٹکو، اس میں چھ (6) خرابیاں ہیں۔ تین خرابیاں تو دنیا کی ہیں اور تین آخرت کی۔ دنیا کی تین خرابیاں یہ ہیں کہ اس سے …
٭ آدمی کے چہرے کی رونق اور کشش جاتی رہتی ہے۔
٭ آدمی پر فقر و افلاس کی مصبیت نازل ہوتی ہے۔
٭ اور اس کی عمر کوتاہ ہو جاتی ہے۔
(8) نشہ آور چیزوں سے بچئے۔ نشہ آور چیزیں دماغ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور معدے کو بھی۔ شراب تو خیر حرام ہے ہی اس کے علاوہ بھی جو نشہ لانے والی چیزیں ہیں ان سے بھی پرہیز کیجیے۔
(9) ہر کام میں اعتدال اور سادگی کا لحاظ رکھیے، جسمانی محنت میں دماغی کاوش میں، ازدواجی تعلق میں ، کھانے پینے میں ، سونے اور آرام کرنے میں ، فکرمند رہنے اور ہنسنے میں، تفریح میں اور عبادت میں، رفتار اور گفتار میں، غرض ہر چیز میں اعتدال اختیار کیجیے اور اس کو خیر و خوبی کا سرچشمہ تصور کیجیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ خوشحالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی بھلی ہے۔ اور عبادت میں درمیانی روش کیا ہی بہتر ہے ‘‘۔
(10) کھانا ہمیشہ وقت پر کھائیے۔ پُرخوری سے بچئے۔ ہر وقت منہ چلاتے رہنے سے پرہیز کیجیے۔ کھانا بھوک لگنے پر کھایئے اور جب کچھ بھوک باقی ہو تو اٹھ جایئے۔ بھوک سے زیادہ تو ہرگز نہ کھایئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
صحت کا دارو مدار معدے کی صحت مندی پر ہے اور زیادہ کھانے سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل میں اس کو یوں واضح فرمایا ہے: ’’معدہ بدن کے لیے حوض کی مانند ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہونے والی ہیں پس اگر معدہ درست صحیح اور درست ہے تو رگیں بھی صحت سے سیراب لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی خراب اور بیمار ہے تو رگیں بیماری چوس کر لوٹیں گی‘‘۔ (بیہقی)
کم خوری کی ترغیب دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ’’ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہے ‘‘۔
(11) ہمیشہ سادہ کھانا کھایئے۔ بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھایئے۔ زیادہ گرم کھانا کھانے سے بھی پرہیز کیجیے۔ مسالوں، چٹخاروں اور ضرورت سے زیادہ لذت طلبی سے پرہیز کیجیے۔