سب کچھ نشر مکرر لگ رہا ہے

401

کیا ملک میں کوئی نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے؟؟؟ کوئی ہمیں قائل کردے کہ ایسا ہوگیا ہے۔ 60 کے عشرے کے حوالے سے تو اپنے بڑوں سے صرف باتیں سنی ہیں، 69 میں کچھ جلوس وغیرہ گھر کے سامنے سے بھی گزرے تھے لیکن باتیں ہی سنی تھیں لیکن 1971، 1972، 1976، 1977 کی صورت حال کا خود مشاہدہ کیا تھا۔ 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے وقت اسکول میں تھے بہت سی باتوں کا خود تجزیہ کرسکتے تھے۔ بلیک آؤٹ کے دوران گھر کے باہر بیٹھکوں میں بہت سی باتیں ہوتی تھیں، فوج کے ہتھیار ڈالنے، مجیب کے مطالبات اور مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے دعوؤں کو پرکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد 1972ء میں لسانی فسادات ہوئے، 1974 میں قادیانیوں کے خلاف تحریک زوروں پر تھی، جمعے کی چھٹی، شراب پر پابندی، قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے فیصلے ہوئے سب سے بڑا معرکہ 1977 کا فوجی اقتدار تھا۔ اس وقت بھی دھرنے ہورہے تھے، اس کے بعد سے ملک میں کئی ایسے دھرنے ہوئے ہیں جن کو بڑھنے کا بھرپور موقع دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔ جس حساس علاقے میں حالیہ دھرنا ہوا اس سے زیادہ حساس علاقے میں عمران خان گھومتے رہے۔ پارلیمنٹ کے اندر تک پہنچ گئے، تو اگر ایسا فیض آباد کے قریب دھرنا ہورہا ہے تو کون سی نئی بات ہوگئی‘ اس دھرنے میں۔ 1977 کے ہنگاموں کے بارے میں ایک بات اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی میں جگہ جگہ اس قسم کے نعرے لگ رہے تھے جو عمران خان کے دھرنے کے موقع پر لگائے جارہے تھے۔ قدم بڑھاؤ راحیل شریف اور بینرز وغیرہ لگ گئے تھے۔ اس وقت فوج کو بھٹو کے خلاف اکسایا جارہا تھا۔ نتیجہ۔۔۔ بھٹو کے خلاف سارا جوش ختم، تحریک نظام مصطفی ٹھنڈی اور پھر اس میں اختلافات۔۔۔ اور آج تک نظام مصطفی ایک نعرہ بن کر زندہ ہے۔ جنرل پرویز کے خلاف بے چینی، احتجاج، لانگ مارچ، کوئی طاقت تھی جو سارے راستے کھول رہی تھی، رکاوٹیں ہٹا رہی تھی آخر کار جنرل پرویز باہر ہوگئے۔ کسی کو تو فائدہ ہوا ہوگا۔ لیکن وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے جن کے لیے قوم قربانیاں دے رہی تھی۔ چیف بحال ہوگیا جسٹس کا انتظار ہے۔
یہ جو دھرنے حساس مقامات پر ہوجاتے ہیں ان کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہو نہیں رہے کرائے جارہے ہیں۔ یا ہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں۔ اس کا ذکر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کردیا اور اس کی تصدیق دھرنے والوں نے آرمی چیف کا شکریہ ادا کرکے کردی۔ جب کہ دھرنا ختم کرکے جانے والوں کو فی کس ہزار روپے دینے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے۔ حسب معمول جو خرابیاں ہوئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اب تک پتا نہیں چل رہا کہ دھرنے کے پیچھے کون تھا؟۔ عدالت عالیہ اسلام آباد تو صاف کہہ چکی کہ فوج دھرنے کے پیچھے تھی۔ لیکن یہ ثابت کون کرے گا اس کے لیے بہت عرصے انتظار کرنا پڑے گا۔ صرف وقت ایسے معاملات کی گرد صاف کرتا ہے۔ معاملے کو بہت جلد دھندلا دیا جائے گا اور فی الحال کئی برس تک قوم حقائق سے محروم رہے گی اور چوں کہ حقائق چھپائے جارہے ہیں، حالیہ دھرنا تو تحریک نظام مصطفی کی طرح نہ تھا کہ اس سے کوئی چیز چھین لی گئی لیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوا پارلیمنٹ میں ہوا حکومت کی اجازت اور رضا مند سے ہوا اسی کے لوگ اس میں ملوث تھے، کام ہورہا تھا انتخابی اصلاحات کا اس میں قادیانیوں کے حوالے سے ترامیم کہاں سے آگئیں، حلف نامے میں ترمیم کہاں سے آگئی۔ سب کچھ ایوان اقتدار میں ہوا پھر تحقیقاتی کمیٹی بھی ایوان اقتدار کی یعنی حکمراں جماعت کی لیکن اس کی رپورٹ بھی چھپائی جارہی ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟؟۔ ظاہری بات ہے اس میں بڑوں کے نام ہیں اور بڑوں کے نام چھپانا پرانی بات ہے۔
یہی سوال ہم نے پوچھا ہے کہ کیا ملک میں کوئی نئی بات ہورہی ہے۔ اگر مختصر طور پر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک ایک بات نشر مکرر ہورہی ہے۔ دھرنا، حکومت کے خلاف احتجاج، پولیس کی ناکامی، فوج کو طلب کیا جانا، فوج کا فائرنگ سے انکار (بھٹو دور) فوج کا اپنے لوگوں پر تشدد سے انکار (فیض آباد) پہلے تو لوگوں پر الزام تھا کہ پیسے دے کر لائے جاتے ہیں۔ عمران خان پر الزام تھا کہ لوگوں کو دھرنے کے لیے پانچ سو روپے روز دیے جارہے ہیں لیکن یہاں تو ڈی جی رینجرز خود لوگوں میں لفافے بانٹ رہے تھے۔ یہ سب کیا تھا بس پہلے چھپ چھپ کر ہوتا تھا اب کھلے عام ہوتا ہے۔ جسٹس شوکت کے ریماکس بھی نہیں روک سکتے بلکہ جسٹس شوکت بھی ایک ’’تبصرہ‘‘ ہوتے نظر آرہے ہیں، اگر پاناما نہیں تو اقامہ میں پھنسا لیے جائیں گے۔ ہوتا یہی رہے گا اور قوم کو بتایا جائے گا کہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا، جنرل پرویز ان کے سب دور سنہری تھے۔ بھٹو، نواز، بے نظیر، گیلانی، زرداری سب کے دور سیاہ تھے۔ یہی ہمارے ملک کا ریاستی بیانیہ ہے۔ اور قوم۔۔۔ عجیب قوم ہے آج میاں نواز شریف کے خلاف ہے، کل الیکشن میں اس نام پر ووٹ دیں گے۔ سندھ میں لوگ پی پی حکومت سے پریشان ہیں کل بھٹو کے نام پر ووٹ دیں گے۔ کراچی کے لوگوں کو الطاف حسین کھا گئے، ایم کیو ایم اور لسانی سیاست نے مار ڈالا لیکن ووٹ کے لیے مہاجر کو تلاش کیا جائے گا۔