دیکھیے حافظ سعید کب تک آزاد رہتے ہیں؟

413

لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی ریویو بورڈ نے مذہبی و فلاحی تنظیم جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی کے کیس کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ حافظ صاحب کو سال رواں کے آغاز پر 30 جنوری کو گھر میں نظر بند کیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ نااہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر بھارت اور امریکا کا شدید دباؤ تھا کہ وہ حافظ سعید کو پابند سلاسل کریں ورنہ ان کی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ امریکا کی حافظ صاحب کے ساتھ کیا دشمنی ہوسکتی تھی وہ تو بھارت کی خوشنودی کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ اصل دشمنی بھارت کی تھی جو انہیں مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کا ایک اہم ستون سمجھتا تھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ مقبوضہ علاقے میں برسرپیکار جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا اب بھی اپنے سابق سربراہ حافظ محمد سعید سے رابطہ ہے اور وہ ان کی ہی کمان میں بھارتی فوج کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ حالاں کہ یہ رپورٹ بڑی حد تک مبالغہ آرائی پر مشتمل تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب امریکا کے دباؤ پر پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں آپریٹ کرنے والی تمام جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا تو لشکر طیبہ بھی اس کی زد میں آگئی تھی۔ حافظ صاحب اس وقت لشکر طیبہ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے قانون کا احترام کرتے ہوئے خود کو اس تنظیم سے علیحدہ کرلیا اور نئی دعوتی، تبلیغی اور فلاحی جماعت قائم کرلی جب کہ لشکر طیبہ کے سرگرم کارکنان مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں انہوں نے اسی نام سے اپنا تنظیمی ڈھانچہ قائم کرلیا اور زیر زمین کام کرنے لگے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ علاقے میں ایک نہیں کئی جہادی تنظیمیں زیر زمین کام کررہی ہیں جن میں کشمیری نوجوانوں کی تنظیم حزب المجاہدین بھی شامل ہے۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر خاردار باڑھ لگا رکھی ہے جس میں ہر وقت کرنٹ دوڑتا رہتا ہے جب کہ بھارتی فوج بھی ہر وقت پٹرولنگ کرتی رہتی ہے، ایسے میں کنٹرول لائن کے راستے مجاہدین کی نقل و حرکت ممکن ہی نہیں رہی لیکن بھارت حافظ سعید پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے مجاہدین مقبوضہ کشمیر بھیج رہے ہیں، یہ الزام اپنی جگہ لغو ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حافظ سعید اب بھی کشمیر کاز کے پرجوش حامی ہیں، ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کشمیر جہاد کے بغیر آزاد نہیں ہوسکتا۔ وہ جب نظر بند نہیں ہوتے تو تحریک آزادی کشمیر کے حق میں جلسوں، جلوسوں اور کشمیر کانفرنسوں کے ذریعے کشمیری عوام کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں، جو نہتے ہونے کے باوجود قابض بھارتی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ یہی بات بھارت کو اکھرتی ہے وہ حافظ سعید پر الزام لگاتا ہے کہ حافظ صاحب مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں، اس کے نزدیک آزادی کا مطالبہ کرنے والے تمام کشمیری دہشت گرد ہیں۔
پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت چوں کہ بھارت کی محبت میں دیوانی ہورہی تھی اس لیے اس نے بھارت کے مطالبے پر حافظ محمد سعید کو نظر بند کرنے میں ذرا بھی پس و پیش نہ کیا لیکن بھارت کا مطالبہ انہیں نظر بند کرنے کا نہیں بلکہ قید بامشقت کی سزا دے کر جیل میں ڈالنے کا تھا۔ چناں چہ حافظ صاحب کی نظر بندی پر بھارت نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ اگر پاکستان ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے میں مخلص ہے تو اسے حافظ سعید کو نظر بند کرنے کے بجائے سخت ترین سزا دینی چاہیے۔ جماعۃ الدعوۃ کے ایک رہنما نے راقم الحروف کو بتایا کہ بھارت کے دباؤ پر میاں نواز شریف نے مودی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ اطمینان رکھیں میں ان لوگوں کا صفایا کردوں گا۔ واضح رہے کہ ڈان لیکس کا تعلق بھی حافظ صاحب کے معاملے سے تھا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو صفایا کیا ہوتا خود میاں نواز شریف کا صفایا ہوگیا۔ وفاقی حکومت حافظ صاحب کی نظر بندی کا کوئی جواز عدالت میں پیش نہ کرسکی۔ ریویو بورڈ میں وزارتِ داخلہ کے حکام نے حافظ صاحب کی نظر بندی کے حق میں جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ انہیں رہا کیا گیا تو بیرونی امداد بن ہوجائے گی۔ بیرونی امداد سے مراد امریکی امداد تھی لیکن ریویو بورڈ کے سامنے اس دلیل کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ امریکا نے حافظ سعید کی رہائی کی صورت میں امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی، چناں چہ ریویو بورڈ نے اس دلیل کو بے وزن قرار دیتے ہوئے حافظ صاحب کی رہائی کا حکم دے دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کی امداد کو صرف حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا ہے، کانگریس نے پاکستان کے لیے امداد کے جس بل کی منظوری دی ہے اس میں لشکر طیبہ یا حافظ سعید کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا بھی بھارت کے پروپیگنڈے کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ بھارت کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کے سبب اس کی ہاں میں ہاں ضرور ملاتا ہے لیکن اپنے علاقائی مفادات ہی اس کے نزدیک اولیت رکھتے ہیں۔ امریکا افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور حقانی نیٹ ورک اس کے اعصاب پر سوار ہے جس سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کی فرمائش کرتا رہتا ہے، امریکی کانگریس کے امدادی بل میں بھی یہ فرمائش موجود ہے۔
حافظ محمد سعید رہا تو ہوگئے ہیں لیکن دیکھیے وہ کب تک آزاد رہتے ہیں کیوں کہ وہ آزاد ہونے کے بعد نچلے نہیں بیٹھیں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک پھر شروع کردیں گے اور بھارت انگاروں پر لوٹنے لگے تھا، پاکستان پر اس کا دباؤ پھر بڑھ جائے گا۔ فی الحال میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں ہیں لیکن ان کی پارٹی تو اقتدار میں ہے، وہ کسی وقت بھی حافظ صاحب کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے، حافظ صاحب کی نظر بندی کے دوران ان کے رفقا نے ملی مسلم لیگ کا ڈول ڈالا ہے کیوں کہ امریکا اقوام متحدہ کے ذریعے جماعۃ الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوارہا ہے اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کا سیٹ اپ اگرچہ اب بھی موجود ہے اور اس کی فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن بھی کام کررہی ہے لیکن قانون کی نظر میں جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اپنے وجود کو منوانے کے لیے ملی مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت کے طور پر میدان میں آئی ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے ابھی تک رجسٹرڈ نہیں کیا۔ اس کے خیال میں ملی مسلم لیگ پر دہشت گردی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، اس چھاپ کو ہٹوانے کے لیے وزارت داخلہ کی تصدیق ضروری ہے اور وزارت داخلہ بھلا ملی مسلم لیگ کی نیک چلنی کی تصدیق کیوں کرنے لگی، چناں چہ یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے اور اس جماعت کے عہدیداروں نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔ لیجیے صاحب ہم یہیں تک لکھ پائے تھے کہ حافظ سعید کی رہائی پر امریکا کا فوری ردعمل سامنے آگیا اس نے حافظ صاحب کی رہائی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ اسے کہتے ہیں ’’مدعی سست گواہ چست‘‘ جب امریکا بھارت کا کیس لڑ رہا ہے تو اسے شور مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ بھارت حافظ صاحب کی دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ کرتا تو اسے ٹالا بھی جاسکتا تھا لیکن اس نے یہ توپ امریکا کے کندھے پر رکھ کر چلائی ہے تو دیکھیے حافظ صاحب کب تک آزاد رہتے ہیں؟