یہ لُنڈے کے لبرل

1297

اصلی تے ولایتی لبرل جب اللہ کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی، اللہ کی کتاب کی اور اللہ کے دین کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر طنز و استہزا کرتے نظر آتے ہیں، تو اس کا پس منظر ہمیں خوب سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے باپ دادا بھی یہی کرتے آئے تھے۔ اگر اُن سے سچ پوچھیے، تو وہ یہی کہیں گے کہ صاحب! سچ تو یہ ہے کہ یہ:
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم!
مگر یہ جو ہمارے یہاں ’’لُنڈے کے لبرل‘‘ پائے جاتے ہیں، آخر ان کا سر پیر کیا ہے کہ جدھر دیکھیے اُدھر اِن دیسی لبرلوں کا ایک ’’لُنڈا بازار‘‘ لگا ہوا ہے۔
بات یہ ہے کہ برصغیر پر انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا تو ہوا کا رُخ دیکھ کراور انگریزی کنٹوپ پہن پہن کر، بہت سے لوگ فقط فیشن میں لبرل ہو گئے۔ ہر کنٹوپ سے ایک پٹّا لٹکا رہتا تھا۔ یہ پٹّا ٹھوڑی کے نیچے لا کرخوب کَس لیا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ منہ کھولنے سے پہلے پٹّا کھولنا پڑتا تھا۔ انگریز جب چاہتے کسی کا پٹّا مزید کَس دیتے۔ نیز جب چاہتے اور جس کا چاہتے، پٹّا ڈھیلا کر دیتے۔ اِس کَسے ہوئے کنٹوپ کے علاوہ اُس زمانے میں ڈھیلا ڈھالا نیکر پہننا بھی لبرل ہونے کی علامت تھی۔ اس نیکر کا ایک فائدہ یہ تھا کہ ’’صاحبِ نیکر‘‘ کسی سے لڑ بِھڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کو اکثر دونوں ہاتھوں سے نیکر ہی سنبھالے رکھنا پڑتا تھا۔ کنٹوپ، کوٹ اور نیکر میں ملبوس یہ دیسی لبرل اچھے بھلے کارٹون لگتے تھے۔ ان کارٹونوں کی کالی کالی ٹانگیں، کھلے پائینچوں کی نیکر سے باہر نکلی ہوئی یوں نظر آتیں گویا بانس کی بَلّیاں ہوں۔ اب بھی جب کسی قدیم کاغذی تصویر میں کوئی لبرل کھڑا نظر آتا ہے تو شرفا کے بیچ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کپاس کے کسی کھیت میں کوّے بھگانے والا پُتلا کھڑا ہو۔ اس قسم کے لبرل اُس زمانے میں انکل ٹام کے ٹامی کہہ کر بُلائے جاتے تھے اور معاشرے کے مضحکہ خیز کردار گردانے جاتے تھے۔ اُنھی کی ذُرّیات یعنی آج کے لبرل بھی انکل سام کے پالتو پُکارے جاتے ہیں۔ کیوں کہ سب جانتے ہیں اورسب مانتے ہیں کہ یہ ’’ہمارے‘‘ جنگل کے جانور نہیں ہیں۔
انگریز جب برصغیر سے رُخصت ہوئے تو اس قسم کی، بلکہ ہر قسم کی اپنی لبرل باقیات یہیں چھوڑ گئے۔نئی نسل کو سمجھانے کے لیے ان کی مثال یوں سمجھیے، جیسے افغانستان پر روسی اور امریکی جارحیت کے بعد ہمارے حصے میں آنے والے دہشت گرد۔ انگریز چلا گیا، یہ باقی بچ گئے۔ اور ہمارے حصے میں آئے۔ جاتے جاتے انگریز بہادر اپنی اُترن انہیں دے گئے۔ سو، انگریزوں کی اُترن پہن پہن کریہی لوگ ’’جنٹل مین‘‘ بن گئے۔ ’’جنٹل مین‘‘ بنے تو اپنے منہ بھی ٹیڑھے کیے۔ اور پھر اِن ٹیڑھے مونہوں میں پائپ یا سگار سلگا سلگا کر مدّتوں اپنے تئیں چرچل یا برنارڈ شا جانا کیے۔ کچھ نے موپاساں کا بھیس بھرا اور کچھ اپنے آپ کو والٹیئر، بودلیئر اور برٹرینڈ رسل جاننے لگے۔
جس طرح انگریز کی اُترنوں سے ہمارے ہر بڑے شہر میں ایک نہ ایک بڑا لُنڈا بازار وجود میں آگیا ہے، اُسی طرح سامراجی آقاؤں کے افکار، نظریات، خیالات اور فلسفوں کا بھی جا بجا لُنڈا بازار سج گیا۔ کچھ بیچنے والے بنے کچھ خریدنے والے۔ لُنڈے سے خریدے ہوئے خیالات زیبِ ذہن کرکے اور لُنڈے کی زبان سے گِٹ پِٹ گِٹ پِٹ کرتے ہوئے یہ لُنڈے کے لبرل جب اسلامی شعائر کا مذاق اُڑا تے ہیں تو واللہ انہیں ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ خود اپنے باپ دادا سے بھاگے ہوئے، یہ لُنڈے کے لبرل، جب پوچھو تو ہر ’’لُنڈا پوش‘‘ کی طرح ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ یہ تحفہ ولایت سے اُن کے انکل نے بھیجا ہے۔ ایسے میں بھلا ہم اُن سے کیا کہہ سکتے ہیں؟ سوائے اس کے:
تُو کوٹھے پہ چڑھ کر اکڑ مام دینا!
رہے اصلی تے ولایتی لبرل ۔۔۔ کہ جن کی اُترن ہمارے یہ لُنڈے کے لبرل پہنا کرتے ہیں ۔۔۔ تو خود اُن کے افکار، خیالات اور نظریات بھی ’’اوریجنل‘‘ نہیں ہیں۔ قرآنِ مجید کا مطالعہ از اوّل تا آخر کر کے دیکھ لیجیے۔ یہ وہی خیالات اور وہی اعتراضات ہیں، جن کے جوابات سیدنا نوح علیہ السلام نے دیے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دیے، سیدنا لوط علیہ السلام نے دیے، سیدنا شعیب علیہ السلام نے دیے، سیدنا ہود علیہ السلام نے دیے اور سیدنا موسیٰ و سید نا عیسیٰ علیہم السلام نے دیے۔ آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلّم پرجو جامع و کامل آخری کتاب نازل ہوئی، اُس کا ایک ایک ورق، آج دوہرائے جانے والے لبرل دلائل کی بوسیدگی کا گواہ ہے۔ آپ پڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین کے دلائل کی جگالی آج بھی کی جارہی ہے۔ جب کہ ہمارے لُنڈے کے لبرل ان جگالی کرنے والوں کے چبائے ہوئے لقموں ہی کی جگالی کیے جا رہے ہیں۔
اقبالؒ نے کہا تھا:
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصۂ جدید و قدیم
زمانہ قدیم ہو یا جدید۔ ہر زمانے میں اس دنیا میں دو طرح کے انسان ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی (ذاتی) عقل استعمال کرتے ہیں۔ غور و فکر کرتے ہیں۔ تدبر سے کام لیتے ہیں۔ اپنی قوتِ سماعت، بصارت، لامسہ، ذائقہ اور شامّہ کو کام میں لاتے ہیں۔ بالآخر اس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک ایک ہی ہے۔ وہ جو اِس کائنات کا خالق و مالک ہے، وہی ہمارا بھی خالق و مالک ہے۔ اُس نے اِس کائنات کو بے وجہ پیدا کیا ہے نہ ہمیں بلامقصد تخلیق کیا ہے۔ وہ انفس و آفاق پر غور کرنے کے بعد پکار اُٹھتے ہیں کہ ربّنا ما خلقت ھٰذا باطلا۔ دوسری قسم ایسے انسانوں کی ہوتی ہے، جو آنکھیں رکھتے ہیں، مگر دیکھتے نہیں، کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل و دماغ رکھتے ہیں مگر سوچتے سمجھتے نہیں۔ جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں۔ ہر خواہش نفس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہر وادی میں منہ مارتے پھرتے ہیں۔ جانوروں کی طرح جو جس طر ف ہانک دے، اُسی طرف بھاگے چلے جاتے ہیں اور اسی بھگدڑ کو دانشوری جانتے ہیں۔ پھر اسی عقل و دانش پر اپنے آپ کو فیلسوف گردانتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کنٹوپ اور نیکر پہن پہن کر لُنڈے کے لبر ل بن جاتے ہیں۔