دھرنوں کے مزے

387

دستور پاکستان کا آرٹیکل 17 پاکستان کے ہر شہری کو انجمن سازی کا حق دیتا ہے‘ اور آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ ملک کا ہر شہری ریاست کا وفادار اور آئین پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے لیے قانون بھی موجود ہے اور یہ قانون ریاست اور آئین کے تابع ہے شاہراہوں کو بند کرنا‘ چوراہوں میں دھرنا دینا اور شہریوں کے لیے زندگی تنگ کردینا کبھی کسی قانون کی حمایت حاصل کرنے والا اقدام نہیں کہلا سکتا البتہ احتجاج اور وہ ایک دائرے اور حد میں رہ کر‘ کیا جائے تو کسی قانون کی زد میں نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں احتجاج اور عوامی تحریکوں کی ایک تاریخ ہے۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی تشکیل اور بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک‘ یہ دو ایسی تحاریک تھیں جن میں عوام سیاسی حق کے لیے سڑکوں پر آئے‘ مگر شہریوں پر زندگی کے دروازے بند نہیں کیے‘ کوئی ایمبولینس جلوس میں نہیں پھنسی‘ نجی املاک محفوظ رہیں‘ ایم آر ڈی کی تحریک اٹھی تو اس میں تشدد شامل تھا ایوب خان کے خلاف جلوس ہو یا قومی اتحاد کی ریلیاں‘ ایم آر ڈی کی تحریک‘ کسی میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ شرکاء کو واپسی کا کرایہ دیا گیا‘ یہ تمام تحریکیں سیاسی مقاصد کے لیے تھیں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد نے دو بار دھرنا دیا‘ نصیر اللہ بابر نے ایسے اقدامات اٹھائے کہ پورا ملک ہی بند ہوگیا‘ اب بھی ایسا ہی ہوا۔دھرنے ہمیشہ حکومتیں ہی کامیاب بناتی ہیں۔ دھرنوں میں اب فرق آتا جارہا ہے۔ قاضی حسین احمد تک تو واپسی کے ٹکٹ نہیں ملتے تھے دو دھرنے ایسے ہیں جب ان چیزوں کی بنیاد ڈالی گئی ہے قاضی حسین احمد تک دھرنوں کی تاریخ یہی رہی کہ بھنے ہوئے چنے ہی خوراک تھی‘ ایسا نہیں تھا کہ منرل واٹر‘ جوس کے ڈبوں کی سپلائی ہورہی ہو‘ اور پلاؤ مل رہا ہو‘ خشک میوے مل رہے ہوں‘ ناچ گانا ہورہا ہو‘ قیادت ہر روز ورزش کرکے کپڑے تبدیل کرکے پرفیوم لگا کر آتی ہو‘ قاضی حسین احمد نے دھرنا دیا تو مری روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں‘ ان کا سرپھوڑا گیا‘ وہ خود زخمی ہوئے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ بند کنٹینرز میں بیٹھے ہوں‘ جہاں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچانے والے برقی آلات اور مصنوعات سجی ہوں آج کے جدید دھرنوں کی بات ہی کچھ اور ہے‘ انداز ہی بدل گئے ہیں‘ ہوسکتا ہے مستبقل میں ایسا دھرنا ہو اور قیادت انٹر نیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے بیٹھے کی دھرنا کنٹرول کررہی ہو‘ یا اسکائپ سے اپنے کارکنوں سے مخاطب ہو اور پھر دھرنا کے اختتام پر اسکائپ کے ذریعے ہی یہ دیکھے کہ کس کس کو پیسے ملے ہیں اور کون رہ گیا۔
سیاسی جماعتوں کی سیاسی اور عملی جدوجہد بلاشبہ جمہوری معاشروں کی پہچان ہوا کرتی ہے‘ پیپلزپارٹی کی سیاسی جدوجہد‘ اختلاف اپنی جگہ‘ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے‘ ہر جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی احتجاج کے ساتھ ساتھ اب کچھ ایسے بھی احتجاج ہونے لگے ہیں جو معاہدوں کے بعد ختم ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں طاہر القادری کا دھرنا ختم ہوا تو حکومت کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ ہوا‘ اب فیض آباد میں دھرنا ہوا تو بھی معاہدہ ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوتی ہے اگر جمہوری حکومت آئین پر عمل کرے‘ قانون سازی کرتے ہوئے بھی ریاست کے بنیادی اساس متاثر نہ ہونے دے تو کیوں احتجاج اور دھرنے ہوں؟ نہ جانے آئین‘ قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی باتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں اقتدار مل جانے کے بعد انہیں غلاف میں لپیٹ کر طاق میں کیوں رکھ دیتی ہیں اور وہی کرتی ہیں جو مغرب کو عزیز ہو‘ انتخابی اصلاحات کرتے کرتے یہ حکومت نامزدگی کے فارم میں ایسی تبدیلی لے آئی کہ پورا ملک جام ہوگیا‘ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھرنے کی اصل خالق تو حکومتیں خود ہوتی ہیں جو دھرنوں کے لیے محنت کرکے زمین زرخیز بناتی ہیں‘ آبیاری کرتی ہیں‘ پھر جب دھرنوں کی فصل پک جائے تو معاہدے کرتی ہیں۔ اگر کبھی موقع ملے تو وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ ایک روز سونے سے قبل پاکستان کا نقشہ اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ وطن عزیز کن کن دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب بھارت ہے‘ دوسری جانب کابل ہے‘ دہلی سے ایک منصوبہ بندی تیار ہوتی ہے وہ کابل کے راستے چودہ سو کلو میٹر پاک افغان سرحد تک انڈے بچے دینا شروع کر دیتی ہے۔ پاکستان ان دشمنوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے اور ہمارے وزیر داخلہ ہیں کہ کہتے ہیں دھرنا تین گھنٹوں میں ختم کرسکتا ہوں‘ جب بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو کہتے ہیں میں تو پنجاب کا وزیر داخلہ نہیں ہوں جو کچھ ہوا پنجاب میں ہوا‘ جب وزیر داخلہ کی سوچ یہ ہو تو موج تو پھر دھرنے والوں کی ہوگی اگر حکومتوں کا رویہ یہی رہا تو مستقبل میں طبقاتی جدوجہد اور عوامی انقلاب کے ذریعے عوام کی بالادستی قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا پھر خالص نظریاتی شناخت والے دھرنے ہوں گے جو ڈرامائی طور معاہدے کرکے ختم نہیں ہوں گے آج کا سبق یہ ہے کہ حکمران بحران تو پیدا کرلیتے ہیں مگر اس پر قابو پانے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہوتی انہیں بحرانی فساد سے بچنے کے لیے پاک فوج کا سہارا لینا پڑتا ہے۔حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کے درمیان یک طرفہ معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا بدقسمت واقعہ اور پوری قوم کے لیے لمحہ فکر ہے۔ اس معاہدہ کے بعد آنے والی ہر حکومت بلیک میل ہوگی۔ ریاست کو اس مسئلے کا ٹھوس اور پائیدار حل تلاش کرنا پڑے گا۔