کراچی میں چائنا کٹنگ اور رفاہی پلاٹوں پر قبضے کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار چونکادینے والے ہیں کہ شہر میں چائنا کٹنگ کے پلاٹوں کی تعداد 35 ہزار ہے۔ گزشتہ بدھ کو عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں رفاہی پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت کا کہناتھا کہ خالی زمینیں سیاست دانوں، سرکاری افسران اور رشتے داروں کو بیچنے کے لیے نہیں ہیں۔ لیکن عملاً تو ایسا ہی ہوا ہے اور برسوں سے ہورہاہے۔ پلاٹوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ کے حوالے سے ایم کیو ایم انتہائی بدنام ہے اور یہ محض الزام نہیں ہے کہ جب کراچی پر ایم کیو ایم کا قبضہ تھا تو پلاٹوں پر بڑی بے رحمی سے قبضہ کیا گیا اور آج فاروق ستار، وسیم اختر، مصطفی کمال اینڈ کمپنی جو دھل دھلا کر نئے چولے بدل کر سامنے آگئے ہیں ان سب نے بہتی گنگا میں خوب غوطے لگائے ہیں۔ رفاہی پلاٹوں پر قبضے اور پارکوں میں ایم کیو ایم کے دفاتر قائم کرنے میں ایم کیو ایم کا پورا ٹولا ملوث تھا۔ اس کا ایک ثبوت الطاف حسین کا بیان بھی ہے جس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دھمکی دی تھی کہ چائنا کٹنگ میں ملوث افراد کی کراچی پہنچ کر خبر لوں گا۔ بے شک ان سب کی لگام الطاف حسین کے ہاتھ میں تھی لیکن ان کے احکامات پر عمل کرنے والے تو یہی تھے جو آج یا تو ایم کیو ایم میں ہیں یا پاک سرزمین پارٹی کو پیارے ہوگئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا ہے کہ رفاہی پلاٹ پر نذیر حسین یونیورسٹی کیسے بن گئی۔ نذیر حسین الطاف حسین کے والد تھے اور کوئی پڑھے لکھے شخص نہیں تھے۔ لیکن نذیر حسین یونیورسٹی کی داغ بیل تو ایم کیو ایم کے کراچی میں موجود رہنماؤں نے ڈالی، خود الطاف حسین نے آکر تو اس کی بنیاد نہیں رکھی تھی اس منصوبے میں ایم کیو ایم کے وہ تمام ارکان اسمبلی اور رہنما شامل تھے جو اب نذیر حسین کے بیٹے سے برأت کا اعلان کرکے انہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں اور لندن سے الطاف حسین فاروق ستار، اظہار الحسن اور مصطفی کمال کو منہ بھر بھر کر ایسی گالیاں دے رہے ہیں جو قابل تحریر بھی نہیں۔ گالیاں دینے میں الطاف حسین اور خادم حسین ایک دوسرے کے استاد معلوم ہوتے ہیں۔ اگر 22 اگست 2016ء کو الطاف حسین کھل کر پاکستان کے خلاف بکواس نہ کرتے تو کراچی پر ایم کیو ایم کا قبضہ بھی برقرار رہتا اور نذیر حسین یونیورسٹی کی تعمیر بھی جاری رہتی۔ جماعت اسلامی کے سابق میئر نعمت اﷲ خان تو پلاٹوں اور پارکوں پر ناجائز قبضوں کے خلاف عرصہ پہلے عدالت سے رجوع کرچکے ہیں۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 35 ہزار پلاٹوں پر قبضے میں صرف ایم کیو ایم ملوث نہیں ہے بلکہ سیاست دانوں، سرکاری افسران اور ان کے رشتے داروں نے بھی لوٹ مار میں حصہ لیا ہے۔ جہاں تک سیاست دانوں یا حکمرانوں کا تعق ہے تو وہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں ان کی لوٹ مار کا جال پھیلا ہوا ہے۔ سندھ تو با اثر سیاست دانوں کی چراگاہ ہے اور اندرون سندھ جو کچھ ہورہاہے اس پر نظر کم ہی جاتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ 35 ہزار پلاٹوں پر قبضہ ایک ماہ یا ایک سال میں تو نہیں ہوگیا ہوگا اس میں تو برسوں لگے ہیں اور عوامی حلقوں کی طرف سے اس پر شور بھی مچایاجاتارہا ہے لیکن احتجاج صدابہ صحرا ثابت ہوا۔ نہ عدالتوں نے کوئی توجہ دی اور نہ حکومت نے۔ حکمران اپنے ہی ساتھیوں یا شریکوں کے خلاف کیا کارروائی کرتے۔قبضہ مافیا دلیر ہوتی چلی گئی۔ حکمران اور افسران کیا کرتے رہے اس کے بارے میں بھی عدالت عظمیٰ نے کہاہے کہ کیا یہ بھی ہم بتائیں کہ کیا کرنا ہے، خود سے کام کیوں نہیں کرتے، کیا دفتروں میں سونے جاتے ہیں؟ یہ سرکاری افسران اور حکمران خود سے کام تو کررہے ہیں ورنہ ہزاروں پلاٹوں پر قبضے کیسے کروادیتے۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے کہ 2 ماہ میں تمام قبضے ختم کروائیں۔ دیکھنا ہے کہ عدالت کے حکم پر کس حد تک عمل ہوتا ہے کیونکہ ملک بھر میں عدالتوں کے احکامات کو نظر انداز کرنے کا رجحان بڑھتا جارہاہے۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی کی ابتر صورتحال پر بھی تبصرہ کیا کہ ماضی میں جو شہر یورپ لگتا تھا اب گندگی اور غلاظت کا ڈھیر ہے، لیکن مزید کھلواڑ نہیں کرنے دیں گے۔ اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کہاہے کہ ’’وفاقی حکومت تو نظر ہی نہیں آرہی، کیا تجاوزات ہٹانے کے لیے بھی فوج طلب کرکے معاہدہ کرنا پڑے گا؟‘‘ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ حکمرانوں کا سارا وقت حکومت بچانے میں صرف ہورہاہے لیکن سندھ حکومت کو تو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ فرصت میں کراچی پر توجہ دے کر ناجائز قبضے ہی ختم کروادے۔