پاکستان پیپلز پارٹی کا 50واں یوم تاسیس

711

سید ناصر حسین شاہ

وزیراطلاعات و محنت، افرادی قوت اور ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ، سندھ

آج سے 50 برس قبل لاہور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سربراہی میں ڈاکٹر مبشر حسین کے گھر پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سامراجی نظام کے خاتمے اور عوام کو آمروں اور کرپٹ حکمرانوں کے جبرو استیصال سے بچانے کے لیے عوامی سیاسی پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد لاہور میں ڈالی گئی تھی مگر پارٹی کا پہلا کنونشن ہالا میں ہوا جس کی میزبانی سندھ کی عظیم روحانی و سیاسی شخصیت مخدوم طالب المولیٰ نے کی تھی۔ مخدوم طالب المولیٰ کے گھر ہالہ شریف میں پیپلز پارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اجلاس کے دوران شرکاء میں سے جن باقاعدہ مندوبین کا اعلان کیا گیا، ان میں ایسے بہت سے نام تھے جن کا اس سے پہلے کوئی نمایاں سیاسی پس منظر نہیں تھا لیکن انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں اسٹیٹس کو کے متصادم نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھ دی۔ ان میں جے اے رحیم (وفاقی وزیر) خورشید حسن میر (وفاقی وزیر)، ملک معراج خالد (پنجاب کے وزیر اعلیٰ) غلام مصطفی خان جتوئی (سندھ کے وزیر اعلیٰ و وفاقی وزیر مواصلات)، غلام مصطفی کھر (پنجاب کے گورنر و وزیر اعلیٰ رہے) ڈاکٹر مبشر حسن (وفاقی وزیر خزانہ)، عبدالحفیظ پیرزادہ (وزیر تعلیم و وزیر قانون)، ڈاکٹر غلام حسین (وفاقی وزیر)، شیخ رفیق احمد (صوبائی اسمبلی کے اسپیکر) شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم (وفاقی وزیر صحت) رسول بخش تالپور (29 اپریل 1972 سے 14 فروری 1973 تک سندھ کے 10 ویں گورنر رہے) میر علی احمد تالپور (ضیا دور میں وزیر دفاع رہے) معروف دانشور ادیب صحافی محمد حنیف رامے (پنجاب کے وزیر اعلیٰ) صحافی، دانشور مولانا کوثر نیازی (وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات) اسلم گرداس پوری انقلابی شاعر معروف مزدور راہنما مختار رانا، اور معروف ترقی پسند راہنما معراج محمد خان سمیت بہت سے ترقی پسند رہنماؤں کے نام قابل ذکر و فخر ہیں۔ کم و بیش اڑھائی سو کے قریب کارکنوں، رہنماؤں، ادیبوں اور شاعروں نے اس تاریخی کنونشن میں شرکت کی۔ 30 نومبر سے یکم دسمبر مندوبین اور دیگر شرکاء کے اجلاس ہوئے جن میں اس نئی پارٹی کی تشکیل و ساخت کے خدوخال طے کیے گئے اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا 50واں یوم تاسیس منایا جارہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے جن میں پارٹی کے یوم تاسیس کے سلسلہ میں کیک کاٹے جائیں گے۔ مرکزی و صوبائی تنظیموں کی جانب سے سیمینارز اور کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا جائے گا جن سے مرکزی و صوبائی قائدین خطاب کریں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی یوم تاسیس کی تقریبات کو گولڈن جوبلی تقریبات کے طور پر منائے گی جس میں قربانیاں دینے والے کارکنوں کو ایورڈ بھی دیے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے 5دسمبر کو اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں بڑے عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کرے گی جس سے بلاول زرداری اور دیگر مرکزی قیادت خطاب کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنما اور کارکنان اپنی شہید قیادت کی قبروں پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی بھی کریں گے۔ اس میں کراچی سے لے کر آزاد کشمیر تک کے کارکنان قافلوں کی صورت میں اسلام آباد میں پہنچیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہے۔ یہ مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی پارٹی ہے۔ یہ پارٹی سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کے خاتمہ کے لیے بنائی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ وہ واحد پارٹی ہے کہ جسے کسی ڈکٹیٹر نے نہیں بنایا۔ جس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہیں تھا۔ یہ صرف ایک عوامی انقلابی پارٹی ہے۔ ہمیشہ سے اس کی طاقت معاشرے کے غریب، محنت کش، مزدور اور کسان رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر ایک ملک گیر تحریک بن گئی۔ 6 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔ اس نقلابی تحریک کی تمام تر توانائی طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں پر مشتمل تھی۔ عوام کی پکار کو سیاسی اظہار دینے والے پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز کے انقلابی نکات ہی تھے جن کی بنیاد پر تحریک کی قیادت پارٹی کے ہاتھ آئی۔ پیپلز پارٹی کا تاسیسی منشور ایک انقلابی دستاویز ہے جس نے 1968۔69ء کا انقلاب جیت کر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی ڈال دیا اور پیپلز پارٹی کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان 50 سال میں پیپلز پارٹی کو کئی مرتبہ محنت کش عوام نے اقتدار دلوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی اور انقلابی شخصیت کی کشش سے عوام جوق در جوق انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طاقت بنتے رہے اور یہ طاقت آج تک قائم ہے۔ جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی کی قربانیاں بے مثال ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، ان کی لختِ جگر شہید بے نظیر بھٹو، شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے شمار کارکنان نے بھٹوکی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انہی قربانیوں کی بدولت پارٹی آج بھی محنت کشوں کی امنگوں کی ترجمان ہے۔ آج بھی زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک کے غریب عوام کے جبری استحصال کے خلاف آواز اٹھائی، آمروں کی جارحیت کے آگے سینہ سپر رہی۔ سب سے بڑھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دو ایسے تحفے دیے کہ جن کی بنیاد پر آج پاکستان قائم و دائم ہے اور ان کا کریڈٹ صرف پیپلز پارٹی کو جاتا ہے۔ ایک چیز جس کا نام ہے آئینِ پاکستان، جس کی بنیاد پر ملک کا اندرونی ڈھانچہ قائم ہے اور دوسری چیز کا نام ہے ایٹم بم، جس کے خوف سے دشمن ہم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اگر آج پاکستان قائم ہے تو پیپلز پارٹی کے انہی دو کارناموں کی بدولت قائم ہے وگرنہ دشمن کب کا ہمارا وجود مٹا چکا ہوتا۔ وقت کڑا امتحان لیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ آمروں سے بھی مصالحت کرنی پڑتی ہے۔ مشرف دور میں ملک سے آمریت کے خاتمے کے لیے محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے مفاہمت کا آغاز کیا اور آج اسی مفاہمت کی بدولت جمہوریت کا شجر قائم ہے۔ اسی مفاہمت کی پالیسی کو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت آگے لے کر چل رہی ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کا نعرہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ آصف علی زرداری کی بطور ایک سیاست دان قابلیت کو پوری دنیا مان چکی ہے جب کہ نوجوان بلاول اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جن کے پاس ان کے نانا کی قربانیوں کی وراثت اور ایک نیا وژن ہے۔ امید ہے کہ وہ پارٹی کو دوبارہ ملک بھر میں فعال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔