(برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں(بارہواں حصہ

467

نجیب ایوبی
قسط نمبر113
پاکستان کے پہلے تجویز کردہ دستور کاڈرافٹ ترمیم و تنسیخ کے بعد اگرچہ 22 دسمبر 1952 کو دستور ساز اسمبلی میں منظوری کے لیے جاچکا تھا (جس کی تفصیل ہم پچھلی اقساط میں لکھ چکے ہیں) اس پر اسمبلی میں بحث ہوتی رہی۔ اس موقع سیکولر عناصر اور قا دیانی مشترکہ طور پر اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ تاہم جماعت اسلامی اور علمائے کرام کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اس معاملے میں اہم کردار ادا کیا اور بالآخر چار سال کی صبر آزما جدوجہد کے بعد 16 ستمبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کے دستور کا حتمی ڈرافٹ منظور کر لیا۔ 17 اکتوبر 1954 کو اسمبلی کے اجلاس میں اس پر بحث کا آغاز ہونا تھا۔ اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ پاکستانی قوم کو دستور کا تحفہ دینے کی تاریخ 25 دسمبر 1954 بھی مقررکر چکے تھے۔
پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے یہ خبر بھی دے دی تھی کہ “آئینی بل تیار ہے اور اس کے ایکٹ بننے میں بس محض اب رسمی منظوری باقی ہے 25 دسمبر 1954 کو اس دستور کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔”
مگر غیر ملکی قوتوں اور سیکولر عناصر کی پشت پناہی پر ایک ایسے موقع پر جب قوم اسلامی دستور کے حوالے سے اعلان کی منتظر تھی گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے وہ سیاہ ترین تاریخی جملے ادا کیے جو اس کے بعد سے لے کر آج تک ایسے ہی چاروں مواقع پر دہرائے جا تے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا رہا کہ کسی نے نوے دن کے اندر انتخاب کروانے کا کہا اور کسی نے یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ “ملک اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہے۔ آئینی مشینری تباہ ہوچکی ہے۔ لہٰذا پورے پاکستان میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آئین ساز اسمبلی اپنی موجودہ شکل میں عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور مزید کام نہیں کر سکتی۔ آخری اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے آئینی معاملات سمیت تمام معاملات کا فیصلہ کرلیں گے۔ جتنی جلد ممکن ہو گا انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔”
اور اس طرح مملکت پاکستان میں اسلا م پسندوں کی اسلامی آئین کے نفاذ کے سلسلے میں جاری پارلیمانی جدوجہد کو (جو سات سال کی کوششوں کے بعد آئین کی شکل میں نافذ العمل ہونے والی تھی۔) کو سپوتاز کرکے ملک میں غیر جمہوری اور” غیر آئینی چور دروازے” کا راستہ استوار کیا گیا۔
جماعت اسلامی نے اس غیر آئینی عمل کی بھرپور مخالفت کی۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین خاں جو قائداعظم کی اچانک رحلت کے باعث دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر بنائے گئے تھے، کی برطرفی کو جماعت اسلامی نے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل میاں طفیل محمد نظم جماعت اسلامی کی ہدایت پر 11 نومبر 1954 کو کراچی پہنچے۔ اور امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ جناب چودھری غلام محمد کے ہمراہ برطرف اسپیکر دستور ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین سے ملاقات کی۔ جناب سردار عبدالرب نشتر، منظر عالم، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی اور ملک شریح الدین ایڈوکیٹ کی مشاورت سے گورنر جنرل کے اس فیصلے کو چیف کورٹ (سندھ ہائی کورٹ) میں چیلنج کردیا گیا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی نے مقدمے کے اخراجات کے لیے ایک ہمدرد جماعت اسلامی کا تعاون حاصل کیا۔
6 دسمبر 1954 کو مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل فیاض علی پیش ہوئے جبکہ مولوی تمیزالدین کی جانب سے جناب اسماعیل چندریگر اور دیگر وکلاء پیش ہوئے۔
چیف کورٹ آف سندھ کے فل بینچ جو جسٹس کانسٹن ٹائن، جسٹس محمد بخش، جسٹس ویلانی اور جسٹس محمد بچل پر مشتمل تھا نے 9 فروری 1955 کو متفقہ طور پر مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر مجلس ہے جسے ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اور جب تک اس کا مقصد پورا نہیں ہو گا اس وقت تک برقرار رہے گی۔ تاآنکہ اس کے ارکان کی دو تہائی اکثریت اسے خود تحلیل نہ کر دے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ “آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر نے کا اختیار تو اب انگلستان کے پاس بھی نہیں رہا اور یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ جو اختیار اب انگلستان کے پاس بھی نہیں رہا وہ 1947 کے بعد پاکستان میں پھر سے استعمال میں لایا جاسکے۔”
سندھ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نئے وزراء جنرل ایوب خان، میجر جنرل اسکندر مرزا، مسٹر اصفہانی، ڈاکٹر خان اور میر غلام علی تالپور کا تقرر خلاف قانون ہے۔ کیونکہ وہ مجلس دستور ساز کے رکن نہیں ہیں۔
مرکزی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اس و قت چیف جسٹس مشہور زمانہ جسٹس محمد منیر تھے۔ دیگر ممبران بنچ جسٹس اے۔آر۔کار نیلیس، جسٹس ایس آر رحمان، جسٹس محمد شریف شامل تھے۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کے حوالے سے انتہائی مشکوک فیصلہ دیتے ہوئے ایک تکنیکی نکتے کا سہارا لیا۔ 21 مارچ 1955 کو چار۔ ایک کی اکثریت سے گورنر جنرل کے حق میں فیصلہ دے دیا اور پاکستان کی پیشانی پر مہر لاقانونیت ثبت کردی۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس بنچ کے فیصلے میں جسٹس آر کارنیلیس واحد جج تھے جنہوں نے اس پر اپنا اختلافی نوٹ لکھا۔
اس کے بعد ایک طویل قانونی جنگ کا آغاز ہوا۔ جس کے دوران گورنر جنرل غلام محمد نے ایک ایمرجنسی پاورز آرڈیننس جاری کرکے کئی نے اختیارات اپنے قبضے میں لے لیے۔ ان میں سے ایک تو مغربی پاکستان میں ” ون یونٹ” قائم کرنے کا اختیار تھا۔ دوسراا ختیار یہ تھا کہ آئیں سازی کے متعلق گورنر جنرل ہر قسم کے معاملات کرنے کا مجاز ہوگا۔ اپنے ان اقدامات کو قانونی تحفظ دینے کے لیے گورنر جنرل نے فیڈرل کورٹ کو ایک ریفرنس پیش کیا کہ وہ اسمبلی کی برطرفی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لے کر اس کے عوامل و عوا قب کے متعلق اپنا مشورہ دے۔
مولوی تمیز الدین کیس، یوسف پٹیل کیس اور گورنر جنرل کے ریفرنس کے نتیجے طور پر فیڈرل کورٹ نے جو انوکھے فیصلے سنائے وہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہلایا جاسکتا ہے۔
اول: اسمبلی کو برطرف کرنے کے لیے گورنر جنرل کا اختیار تسلیم کرلیا گیا۔
دوم: گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم نہیں کیا گیا کہ کہ وہ نامزدگیوں کا کنونشن قائم کرکے آئین سازی کا کا م اس کے سپرد کرے۔
بلکہ عدالت نے مشورہ دیا کہ وہ فوراً برطرف اسمبلی کی جگہ اسی طرز کی نئی اسمبلی کے لیے انتخابات کروائے۔
سوئم: بہت سے ایسے قوانین جو پچھلی اسمبلی کی طرف سے منظور تو ہوئے پر ابھی تک نافذ العمل نہ ہوسکے تھے اور گورنر جنرل نے آرڈیننس کی بدولت ان کی توثیق کردی تھی فیڈرل کورٹ نے کہا کہ جب نئی اسمبلی بن جائے تو اس کی منظوری لازمی ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں گورنر جنرل کے بہت سے فیصلے اور آرڈیننس موت کے گھا ٹ اتر گئے۔ ایسے قوانین کی تعداد چھیالیس تھی۔ اور ان میں وہ کالا قانون بھی شامل تھا جس کے تحت مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اور اسی کے بعد سزا منسوخ ہوکر عمر قید کی تجویز میں بدل دی گئی۔
ان تمام فیصلوں کے پیچھے “نظریہ ضرورت” کی روح کار فرما تھی۔ چیف جسٹس منیر نے خود لکھا کہ “ہم ایک خندق کے کنارے آ پہنچے ہیں۔ جہاں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں۔ (1) جس راہ سے ہم آئے ہیں وہاں واپس مڑ جائیں۔ (2) خندق پر ایک قانونی پل تعمیر کرکے اسے عارضی طور پر عبور کرلیں۔ (3) خندق میں چھلانگ لگا کر تباہی کا شکار ہوجائیں” اور فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کی کھودی ہوئی خندق پر جو قانونی پل قائم کیا وہ law of necessity “قانون ضرورت” کے ستوں پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ شاخ ہمارے امور سلطنت میں پہلی بار 1955 میں داخل ہوئی اور بیس پچیس برسوں میں پھول کر ایک تنومند درخت بن گئی۔
یہاں سابق بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ “جس زمانے میں یہ ریفرنس فیڈرل کورٹ میں زیر سما عت تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرا ڈپٹی سکریٹری فرخ امین ہر دوسرے تیسرے روز لاہور آ جا رہا ہے۔ ایک روز میں نے اسے ڈانٹا کہ میری اجازت کے بغیر وہ اتنی بار لاہور کیوں جاتا ہے؟ اس نے صاف گوئی سے کام لے کر مجھے بتایا کہ وہ گورنر جنرل کا کوئی خفیہ پیغا م کوڈ ورڈز (code wards) کی صورت چیف جسٹس کے پاس جاتا ہے اور وہاں سے اسی طرح کے کوڈ الفاظ میں چیف جسٹس کا پیغام گورنر جنرل کو لاکر دے دیتا ہے”
حوالہ جات: جہد مسلسل
شہاب نامہ،
مضمون ڈاکٹر خلیل احمد: ہفت روزہ زندگی لاہور جولائی۔ اگست 2000ء
(جاری ہے)