(حضرت ہود علیہ السلام اور قومِ عاد (دوسرا حصہ

1466

سید مہرالدین افضل
(30واں حصہ)
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر :53 :54:55۔ سورۃ حٰم السجدۃ حاشیہ نمبر :17۔ سورۃ الشعراء حاشیہ نمبر :90:91 :92۔ سورۃ ہود حاشیہ نمبر:65)
قومِ عاد کی مذہبی حالت:
ایسا نہیں تھا کہ قومِ عاد اللہ کو جانتی اور مانتی نہیں تھی، اور نہ ہی وہ اللہ کی عبادت سے انکار کرتے تھے۔ وہ اللہ کو ربِ اکبر مانتے تھے لیکن اس بات کو نہیں مانتے تھے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے۔ اور اپنی اس جہالت پر اڑے رہے کہ اُس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی، جو حقیقت میں اس کی مخلوق اور غلام ہیں، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھیرائیں گے۔ انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جواب دیا کیا تو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور اُنہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تُو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تُو سچا ہے۔ (سورہ الاعراف، آیت 69)
حضرت ہودؑ نے ان سے کہا ’’تمہارے ربّ کی پھٹکار تم پر پڑ گئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا۔ کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔ (سورہ الاعراف آیت 70)۔۔۔ (یعنی تم کسی کو بارش کا، اور کسی کو ہواکا، اور کسی کو دولت کا،اور کسی کو بیماری کا رب کہتے ہو، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی حقیقت میں کسی چیز کا رب نہیں ہے)۔ اس کی مثالیں موجودہ زمانے میں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ کسی انسان کو لوگ مشکل کُشا کہتے ہیں، حالانکہ مشکل کشائی کی کوئی طاقت اس کے پاس نہیں ہے۔ کسی کو گنج بخش کے نام سے پکارتے ہیں، حالانکہ اس کے پاس کوئی گنج نہیں کہ کسی کو بخشے۔کسی کے لیے داتا کا لفظ بولتے ہیں، حالانکہ وہ کسی شے کا مالک نہیں کہ داتا بن سکے۔ کسی کو غریب نواز کا نام دیا گیا ہے حالانکہ وہ غریب اُس اقتدار میں کوئی حصہ نہیں رکھتا جس کی بنا پر وہ کسی غریب کو نواز سکے۔ کسی کو غوث (فریاد رس) کہا جاتا ہے، حالانکہ وہ کوئی زور نہیں رکھتا کہ کسی کی فریاد کو پہنچ سکے۔سچ یہ ہے کہ یہ سب نام صرف نام ہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جو ان کے لیے جھگڑتا ہے وہ دراصل چند ناموں کے لیے جھگڑتا ہے، نہ کہ کسی حقیقت کے لیے۔ ان بناوٹی خدائوں کو پوجنے والوں سے سوال یہی ہے کہ جب تم اللہ اکبر کہتے ہو، تو تمہارے پاس اس کی کوئی سند ہے کہ تمہارے اِن بناوٹی خداؤں کی الہٰیت و ربوبیت کا حق اللہ نے دیا ہے۔ اللہ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں کی طرف اپنی خدائی کا اتنا حصّہ منتقل کردیا ہے۔ تم نے آپ ہی اپنے وہم وگمان سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خدائی کا جتنا حصّہ جس کو چاہا ہے، دے ڈالا ہے۔ سورہ ہود میں ارشاد ہوا: ’’یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی‘‘۔ سورہ الشعرا آیت 123 میں ارشاد ہوا: ’’عاد نے رسولوں کو جھٹلایا‘‘۔ اگرچہ ان کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، مگر جس چیز کی طرف اس نے دعوت دی تھی وہ وہی ایک دعوت تھی جو ہمیشہ ہر زمانے اور ہر قوم میں خدا کے رسول پیش کرتے رہے ہیں، اسی لیے ایک رسول کی بات نہ ماننے کو سارے رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا۔
قومِ عاد کے رنگ ڈھنگ:
عاد کے لیے قرآن مجید میں، ذات العماد (اونچے ستونوں والے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں بناتے تھے اور دنیا میں اونچے ستونوں پر عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہوں نے شروع کیا تھا۔ قرآن مجید میں ان کی اس خصوصیت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ حضرت ہودؑ نے ان سے فرمایا: ’’یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اُونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو، اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو، گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے‘‘ (سورہ الشعرا آیت نمبر128۔ 129)۔ وہ صرف اپنی عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسی عالی شان عمارتیں تعمیر کرتے تھے جن کا کوئی استعمال نہیں، جن کی کوئی ضرورت نہیں، نہ جن کا کوئی فائدہ اس کے سوا کہ وہ بس ان کی دولت و شوکت کی نمائش کی نشانی کے طور پر کھڑی رہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دوسری قسم کی تعمیرات جو اگرچہ استعمال کے لیے تھیں، لیکن ان کو شاندار، مزین اور مستحکم بنانے میں وہ اس طرح اپنی دولت، محنت اور قابلیتیں صرف کرتے تھے جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنے کا سامان کررہے ہوں، جیسے زندگی کا مقصد بس یہیں کے عیش کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے آگے کوئی زندگی نہیں ہے جس کی فکر کی جائے۔
اس سلسلے میں یہ بات دل میں بٹھا لینی چاہیے کہ بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ شاندار عمارتیں بنانا کوئی ایک ہی عمل نہیں ہے جس کا اظہار کسی قوم میں اس طرح ہوسکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورتِ حال تو ایک قوم میں ظاہر ہی اُس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے، اور دوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظام تمدن خراب ہوجاتا ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی تعمیرات پر جو گرفت کی اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ ان کے نزدیک صرف یہ عمارتیں ہی قابلِ اعتراض تھیں، بلکہ دراصل وہ بحیثیتِ مجموعی ان کی معاشرت، معیشت اور تہذیب و تمدن پر گرفت کررہے تھے اور ان عمارتوں کا ذکر انہوں نے اس حیثیت سے کیا تھا کہ سارے ملک میں ہر طرف یہ بڑے بڑے پھوڑے اس فساد کی نمایاں ترین علامت کے طور پر ابھرے نظر آتے تھے۔ جب کسی قوم کے کھاتے پیتے لوگ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ رہنے کے لیے مکان نہیں محل اور قصر بنا نے لگیں۔۔۔ اور اس سے بھی تسکین نہ ہو تو بلا ضرورت عالی شان عمارتیں بنانا شروع کردیں جن کی کوئی ضرورت اظہارِ دولت کے سوا کچھ نہ ہو، ان کا معیارِ انسانیت اتنا گرجاتا ہے کہ کمزوروں کے لیے ان کے دلوں میں کوئی رحم نہیں ہوتا، غریبوں کے لیے ان کی سرزمین پر کوئی انصاف نہیں ہوتا، آس پاس کی کمزور قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے کمزور طبقات، سب ان کے جبر اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں اور کوئی ان کے ظلم سے بچانے والا نہیں ہوتا۔ عاد زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے تھے اور خم ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے۔ اللہ نے ان کو اس طرح ذلیل کیا کہ ان کی آبادی کے بڑے حصے کو ہلاک کردیا، اور ان کے تمدن کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ جب کوئی قوم صرف نظری طور پر اللہ کو مانے، لیکن اللہ کو رب ماننے کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہی کچھ کرتی ہے جو قومِ عاد نے کیا، اور اسے اس انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا جو قومِ عاد کا ہوا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعواناان لحمد للہ رب العالمین۔