پارک سے تیسرا مکان

557

زاہد عباس
’’میرے گھر کا پتا بہت ہی آسان ہے۔ اسٹیشن سے ٹیکسی پکڑو، ہمارے علاقے میں پہنچ کر کسی بھی شخص سے معلوم کرو کہ ماڈل پارک والی گلی کون سی ہے، ہر کوئی بتادے گا۔ بس پارک کے ساتھ تیسرا مکان میرا ہی ہے۔‘‘ فون پر اپنے دوست کو پتا سمجھانے کے بعد محمد انور صاحب نے فون بند کردیا۔
یہ پڑھ کر آپ ضرور اس سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ نہ جانے پاکستان کا یہ کون سا شہر ہے جہاں رہائش پذیر محمد انور صاحب پارک کا حوالہ دے کر گھر کا پتا بتارہے ہیں! حیرت زدہ نہ ہوں، یہ ہمارا ہی شہر کراچی ہے جہاں رہنے والے اسی طرح پارکوں، کشادہ میدانوں اور چمکتی سڑکوں کا حوالہ دے کر گھر کا پتا سمجھایا کرتے تھے۔ کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جس کی پہچان کھیل کے میدان اور سرسبز پارک نہ ہوں۔ پختہ گلیاں، چوکوں اور چوراہوں پر روشنی پھیلاتے بلب شہر کی وہ پہچان تھے جس کی بدولت لوگ کراچی کو روشنیوں کے شہر کے نام سے جانتے۔ شہریوں کا معمول تھا کہ وہ رات گئے تک اجالوں سے بھرے اس شہر کے تفریحی مقامات خاص کر ساحلِ سمندر پر بیٹھتے، پُرسکون زندگی گزارتے۔ شہریوں کو کسی قسم کا خوف تھا نہ پریشانی۔
پھر رفتہ رفتہ حالات بدلنے لگے۔ سیاسی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ذہن بھی تبدیل ہونے لگے، نفرتیں بڑھنے لگی، لسانیت کی آگ نے سب کچھ جلا کر راکھ کر ڈالا، محبتیں ختم ہوگئیں، روشنیوں پر اندھیرے غالب آگئے، نفسانفسی اس قدر بڑھی کہ لوگ ایک دوسرے کے سائے سے بھی خوف زدہ ہونے لگے، تعمیراتی ڈھانچہ تباہ کردیا گیا، کشادہ میدانوں پر چائنا کٹنگ کے نام پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کرکے پلاٹ اور مکانات فروخت کیے گئے۔ یہ سب کچھ منظم طریقے سے کیا جانے لگا۔ پارکوں کے گرد لگائی جانے والی لوہے کی جالیوں کو کاٹ کاٹ کر کباڑیوں کی نذر کیا جانے لگا، ہر طرف لوٹ سیل لگائی گئی۔ دھونس دھمکی کے بل پر لوگوں کو خوف زدہ کیا جاتا، جو لوگ اپنے ضمیر اور خودداری کے مطابق اس طرزِ سیاست کے خلاف کھڑے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یوں ترقی، روزگار اور روشنیوں سے منسوب یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ اس تحریر میں انورصاحب کی فون کال کا ذکر کرنے کا واحد مقصد لوگوں کو ماضی کے کراچی کی اصل جھلک دکھانا ہے، نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ بھی کرنا ہے کہ کس طرح شہر کو ایک منصوبے کے تحت دنیا کا گندا ترین شہر بنادیا گیا۔ خیر، زمانہ بدلا تو دوستوں کو اپنے گھر کا پتا بتانے کا طریقہ بھی بدل گیا۔ اب کچرے سے بھرے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے معمور شہر کا نوجوان اپنے گھر کی شناخت گندے نالے اور ابلتے سیوریج سسٹم کو بناتا ہے۔ اگر کسی کو معلومات دینی ہوں تو کہا جاتا ہے کہ گندے نالے کے ساتھ ساتھ الٹے ہاتھ پر جو کوڑا دان ہے اُس گلی میں رہتا ہوں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ پوچھنے والے بھی خوب ہوتے ہیں، جواب میں انہیں بھی کچھ اسی طرح کی ہی شناخت دکھائی دیتی ہے۔ یعنی جب ہر طرف گندگی، تباہ حال سیوریج سسٹم اور خستہ گلیاں ہوں تو اسی قسم کی شناختوں سے علاقے مشہور ہوتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جب بلدیہ کراچی میئر عبدالستار افغانی کے پاس ہوا کرتی، یا یوں کہیے جب بابائے شہر افغانی صاحب ہوتے تھے تو کراچی کا ہر بلدیاتی حلقہ اپنی مثال آپ تھا۔ کوئی نہ کوئی ترقیاتی کام ہوتے رہتے۔ کراچی میں سیوریج سسٹم ہو یا سڑکیں، پینے کے پانی کا منصوبہ ہو یا پھر محلّوں میں بنائے جانے والے اسپورٹس کمپلیکس، صفائی سے لے کر پارکوں تک عوام کی سہولتوں کا خاص خیال رکھا گیا۔ ہر شعبے میں بلدیاتی اداروں نے خاصی کامیابی حاصل کی۔ ہر علاقے کا کونسلر عوامی منصوبوں کی تکمیل میں ذاتی دل چسپی لیتا، لوگوں کو کام کی بنیاد پر عزت دی جاتی۔ اگر اُس دور کو کراچی کی ترقی کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کئی میگا پروجیکٹ افغانی صاحب ہی کی وجہ سے لگائے گئے۔ سیوریج سسٹم کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن آبادیوں میں میئر افغانی کے وقت میں سیوریج سسٹم ڈالا گیا وہ تقریباً 35 برس گزرنے کے باوجود قابلِ استعمال ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ 1980ء کی دہائی میں لانڈھی کورنگی کے ایک علاقے سیکٹر 36-B میں ’’لوئر لانڈھی‘‘ کے نام سے مین سیوریج لائن دی گئی، منصوبے کے مطابق یہ لائن صرف ایک سیکٹر کے لیے ہی ڈالی گئی تھی۔ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود لوئر لانڈھی نہ صرف متعلقہ سیکٹر کا سیوریج سسٹم کامیابی سے چلا رہی ہے بلکہ 6 سے 7 ناجائز طور پر ملائے جانے والے علاقے کے سیوریج سسٹم بآسانی برداشت کررہی ہے۔ صرف اس ایک مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اُس زمانے میں بنائے جانے والے منصوبوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ ترقیاتی منصوبے مستقل بنیادوں پر ہوں۔ 35 برس بعد بھی لوئر لانڈھی سے سیوریج کے اضافی پانی کی سپلائی ہونا اُس وقت کے میئر کراچی کی ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح جہاں شہر بھر کے ہر علاقے میں پارک بنائے گئے، اس سیکٹر 36-B میں بھی 26 پارک بنے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی علاقے میں پارکوں کی تعمیر علاقے کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ ملک میں کوئی سیکٹر یا علاقہ ایسا نہیں جہاں اتنی زیادہ تعداد میں پارک ہوں۔ جن لوگوں کو کام کرنے تھے، کیے۔ آج علاقے میں اُن پارکوں کا نام و نشان باقی نہیں۔ کل کے آباد محلہ پارک آج کسی ایسے کھیت کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں سبزے کے بعد خشک سالی آچکی ہو۔ آنے والوں نے نہ صرف ہرے بھرے چمن اُجاڑے بلکہ اُن کی باقیات تک نیلام کرڈالیں۔ ظاہر ہے جب سیاسی لسانی گروہ اپنے کارکنوں کو بطور مالی بھرتی کروائے گا، اور وہ اپنے آپ کو علاقے کا چودھری سمجھے گا تو پارک میں پانی سے لے کر پودوں کی حفاظت کا کام اس کی توہین ہوگی۔ اس کا علاج اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ پارکوں کا نام و نشان ختم کردو، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ سیاسی دفتر میں حاضری دو، گھر بیٹھ کر تنخواہ لو، اللہ اللہ خیر صلا۔ ایک طرف سیاسی لسانی گروہ لوگوں کے لیے بنائے گئے تفریحی مقامات کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھا تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنے محلّوں میں بنائے گئے پارکوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ میں ایسے کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بدترین حالات اور مخالفت کے باوجود اپنے گھر کے قریب واقع پارک کو آباد کیا۔ انہی میں سے ایک پارک لانڈھی نمبر 6 کا ہے جس پر باڑے والوں نے قبضہ کررکھا تھا۔ نوجوانوں نے نہ صرف ان بااثر لوگوں سے مقابلہ کیا بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت پارک آباد کردیا۔ لانڈھی کے ان نوجوانوں کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے دوسروں نے بھی متعدد اجڑے ہوئے پارک آباد کیے۔ اس عوامی خدمت کو جاری رکھتے ہوئے محلے کی سطح پر لوگوں نے پارکوں کو گود لینا شروع کردیا۔ کیوں کہ یہ ایک صحت مند اور ماحول دوست عمل تھا، اس لیے عوام میں خاصی حد تک مقبول ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت برباد کیے گئے پارکوں کی آبادکاری ہونی چاہیے تھی۔ درختوں میں اضافہ ماحول پر خوشگوار تبدیلی کا سبب ہے لیکن جن کی سیاست کا محور اندھیرے ہوں اُن کے نزدیک روشنیاں اور رونقیں زہرِ قاتل ہوا کرتی ہیں۔ جن کی سیاست لوگوں کو خوف میں مبتلا رکھنے کے سوا کچھ نہیں، وہ بھلا کس طرح علاقوں کی رونقیں برداشت کرتے! قبضہ گروپ کی لسانی سوچ نے یہاں بھی کام کرنا شروع کردیا۔ لوگوں کو نفسیاتی طور پر ہراساں کیا جانے لگا۔ کبھی اسلحہ بردار جتھوں نے عوام کی طرف سے آباد پارکوں میں بیٹھنا شروع کیا تو کبھی تنظیمی پروگراموں کے نام پر ڈیرے ڈالے جاتے رہے۔ کراچی میں رہنے والا ہر شخص اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ماضیٔ قریب تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح منفی سوچ غالب آنے لگی اور نوجوانوں کے حوصلے پست ہونے لگے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کو سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے دبائو میں لایا جائے گا تو کون معاشرے میں توانا سرگرمیوں کا حصہ بن سکتا ہے! یعنی جہاں سے چلے وہیں آن پہنچے۔ پھر دوبارہ وہی صورتِ حال، وہی تباہ حال پارک عوام کا مقدر بنادیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تاکہ معاشرے میں اُبھرتی اس سوچ کو توانا کیا جاتا، الٹا ان کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت کارروائی کرنا، اداروں اور لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والوں کا وہ اقدام ہے جس نے شہریوں کو منفی سرگرمیوں کی طرف دھکیلنے کی بھی کوشش کی۔ اس ساری صورتِ حال میں اربابِ اختیار کی خاموشی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
آج کراچی کی سیاسی صورتِ حال خاصی مختلف ہوچکی ہے۔ لہٰذا ان سیاسی جماعتوں کو جو عوام کے حقوق کی اصل ترجمان ہیں، آگے بڑھ کر علاقائی سطح پر لوگوں میں تعمیری سوچ کو اجاگر کرنا ہوگا، تاکہ شہر میں بڑھتی آلودگی کے خلاف سبز انقلاب لایا جاسکے۔ چھوٹے چھوٹے پارکوں کی تعمیرنو کرنا ہوگی، اُن مالیوں کو جو سیاسی بنیاد پر بھرتی کروائے گئے، کام پر لگانا ہوگا۔ ایسے اقدامات سے ہی کراچی کو ماضی کا سرسبز شہر بنایا جاسکتا ہے۔ ساتھ ساتھ محکموں سے اُن کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہوگا جن کے اختیارات کی بدولت بے اختیار لوگ بھی بااختیار بنے بیٹھے ہیں۔