کیا وہ ٹرک گزرگئے؟؟؟

776

نون۔ الف
کسی زمانے میں پاکستان ٹیلی وزن پر ایک مزاحیہ پروگرام “ففٹی ففٹی” کے نام سے ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا۔ اس شاندار پروگرام میں مختلف نوعیت کے انڑاد سے حکومت پر تنقید تبصرے اور توجہات دلائی جاتی اور عوام الناس کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی جاتی تھی۔ اس میں کبھی کبھی شاعری کو بھی جگہ مل جاتیں۔ اس پروگرام میں ایک مرتبہ افتخار عارف صاحب کو مشہور غزل کی پیروڈی کی گئی تھی جو کچھ یوں تھی
کیا وہ ٹرک گزر گئے ؟
ہاں وہ ٹرک گزر گئے
کیا وہ سڑک ہوئی تمام ؟
ہاں وہ سڑک ہوئی تمام
پورے پاکستان میں بالخصوص اسلام آباد میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری ہیجان خیز دھرنے اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے حکومتی بے دلا آپریشن اور پھر اس کے رد عمل میں ملک گیر ہنگاموں ، شہادتوں ،اور املاک کے نذر آتش کے جانے کے بعد بالآخر یہ معاملہ عسکری قوت کے مصا لحتی کردار ادا کرنے کی وجہ سے خوش اسلوبی سے ایک کروٹ بیٹھ گیا۔
احتجاجی دھرنے کی وجہ سے وفاقی وزیر قانون کو مستعفی ہوکر اپنے خلاف فتوی نہ آنے کی گارنٹی بھی معاہدے کی شق کے طور پر لکھوانی پڑی۔ اس اشو نے پورے ملک کے مقتدر اداروں کو باہم متصادم بھی کرکے اور ایک نیا پنڈورا بکس بھی کھول دیا ہے۔
ناموس رسالت اور ختم نبوت کے حوالے سے اس ھڑا ھڑی اور شور شرابے نے معتدل مزاج کی اسلا م پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بظاہر بیک فٹ پر کردیا ہے۔
اس پورے معاملے کو اب جس تناظر میں دیکھا جارہا ہے وہ کچھ اسطرح کا ہے۔
1۔ ختم نبوت کے چمپئین اور ناموس رسالت کے پاسدار۔چوکیدار علامہ خادم حسین رضوی صاحب بلا شرکت غیرے پورے اشو کے ” چیمپئن ” قرار دے دئیے گئے۔
2۔ اسلام کی سربلندی اور ختم نبوت کی جدوجہد یا مطالبات کی منظوری کا سب سے اچھا اور سرعت پزیر حل” احتجاجی دھرنا۔ اور ہنگامہ ” قرار پایا۔( جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب اگر خدانخواستہ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی اور اس قسم کی نازیبہ حرکت ہوتی ہے تو اسے بھی بالکل اسی پیمانے پر رکھ کر حل کروانے کی کوشش کی جائے گی )
3۔ پارلیمان اور سیاسی قوتوں کی اہمیت کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ یا کم کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
4۔ اسلام کا یا مذہبی طبقے کی جو تصویر پوری دنیا میں ” علامہ خادم حسین رضوی ” صاحب کے فرمودات اور ارشادات کی صورت میں مشتہر ہوئے اس نے زبان و آہنگ کا ایک ایسا انداز متعارف کروایا کہ اب اسلام کو پسند کرنے والے پڑھے لکھے اور دھیمے مزاج کا طبقہ بھی عجیب گو مگوں کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ہے۔
5۔ سلجھے علماء کرام اور مختلف مکاتب فکر کے دینی و سیاسی رہنماء مجبوری میں حمایتی بیانات اور شہدا کے لئے تعزیتی کلمات تک محدود رہے۔
جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس ” تیز رفتار بغیر بریک والی بس کی ڈرائیونگ سیٹ ” کس کے پاس ہے ؟
ان معروضات کے بعد اب ایک اور انداز سے اس اہم معاملے کو دیکھتے ہیں کہ کیا حقیقت میں تصویر ایسی ہی ہے جو دکھائی دیتی یا دکھائی جا رہی ہے ؟
کیا پارلیمنٹ میں اس اہم ترین معاملے کو پیش کیا گیا تھا یا نہیں ؟
اگر کیا گیا تھا تو اس پر گفتگو کروانی چاہیے تھی اور پھر اس ترمیم کی مخالفت میں جو سفارشات پیش کی گئیں تھیں ان کا کیا ہوا ؟
ہماری معلومات کے مطابق جب اس بل میں ترمیم کی بات ہوئی تو سب سے پہلے جماعت اسلامی کے ممبر قومی اسمبلی جناب صا حبزادہ طارق نے اس پر اپنے اعتراضات جمع کروائے تھے۔
اور یوں پوری پارلیمنٹ اس گھناؤنی سازش سے آگاہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد۔۔۔۔ ؟
حکومتی بنچوں نے ان اعترا ضات کے باوجود اس بل میں ترمیم کو منظور کرلیا۔ میڈیا اور ٹاک شوز کی بدولت آہستہ آھستہ عوام میں ایک لاوا پکتا رہا۔ جس کی نزاکت کو دانستہ نظر انداز کیا گیا اور مسلسل یہ جھوٹ بولا جاتا رہا کہ کسی قسم کی ترمیم نہیں ہوئی ہے اور پچھلا حلف نامہ جوں کا توں موجود ہے۔۔۔۔۔ حد تو یہ ہوئی کہ وفاقی وزراء احسن اقبال۔ خواجہ سعد رفیق اور دیگر نے ٹویٹ اور اپنے سوشل میڈیا پیجز پر پڑنا اور نیا حلف نامہ دونوں دکھا یا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔۔۔۔
پھر جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب اسد اللہ بھٹو صاحب نے باریک بینی کے ساتھ اس اہم ترمیم اور سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے علماء کرام کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں اور تمام دستاویزی ثبوت۔ قادیانیوں کے ووٹ دینے کے ریفرنس الیکٹوریل آرٹیکلز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ حکومت اس تمام معاملے میں جھوٹ بول رہی ہے۔ اور حلف نامے کی بجائے اقرار نامہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جسے اب کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وغیرہ وغیرہ
حکومتی دریغ گوئی کی اس انتہاء کو بظاہر پھولے پھولے انداز سے چلانا ممکن ہی نہیں تھا۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ مذہبی جماعتیں اس ترمیم اور حکومتی چالبازی کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کرنے کا سوچیں۔۔
یہی وہ خلاء تھا جسے علامہ خادم حسین رضوی نے اپنے احتجاجی دھرنے سے پورا کیا۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ختم نبوت کے معاملے پر الحمدللہ پوری قوم ایک پیج پر ہے۔ اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ جب جب اس حوالے سے کوئی بھی گیم بنایا گیا عوام نے اس سازش کو ناکام بنایا۔ 1953 میں بھی جب پاکستان کے دستور میں قادیانیوں کے حوالے سے جماعت اسلامی اور علماء کرا م کی قانونی اور پارلیمانی جدوجہد اپنا رنگ لانے کے قریب تھی اسکندر مرزا اورگورنر جنرل غلام محمد اور سر ظفر اللہ قادیانی وزیر خارجہ نے اس معاملے کو ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے ہنگاموں اور فسادات میں ڈھال دیا تھا۔ علامہ خادم حسین رضوی طرز کے اس وقت کے احراری علماء نے پارلیمانی جدوجہد کو سپوتاز کرنے اور حکومتی سازش کا آلہ کار بنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا اور آج بھی اگر خادم حسین رضوی حکومتی نہیں تو کسی اور قوت کا ہراول دستہ تو بن ہی گئے۔
ساتھ ہی ساتھ دوسرا خطرناک پہلو یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اب علمائے کرام اور دینی جماعتوں میں بھی اس حوالے سے ایک شدت پسندی کی لہر پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
جمعیت علماء پاکستان (نورانی) و ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے تحریک ختم نبوت کی کامیابی پر اس تحریک میں شامل اہلسنت و الجماعت کی تمام دینی اور سیاسی تنظیموں اور ان میں شامل تمام عاشقان مصطفیٰؐ اور تمام آستانوں کے سجادہ نشینوں ،تمام علماء و خطباء کومبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ” اب حکمرانوں کو چاہئے کہ جس طرح پوری قوم اس تنازعہ کے پرامن حل پر پاک آرمی کو خراج تحسین پیش کررہی ہے حکمراں بھی ان کا شکریہ ادا کریں کہ پاک آرمی نے بہت بڑے خطرے سے ان کو نجات دلا دی ہے۔”
اسی طرح دیگر بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتیں دبے الفاظ میں عسکری قوتوں کو مبارکباد دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
جبکہ ایک بہت بڑاطبقہ ایسا بھی ہے جو فوج کے اس طرز عمل اور اس معا ہدے کو دوسری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فوج نے نرمی کا مظا ہرہ ہی کرنا تھا تو لال مسجد اور وہاں کی معصوم بچوں بچیوں کو گولیوں سے بھونتے وقت یہ نرم روی کہاں چلی گئی تھی ؟
اس طرح کی اپروچ کو اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور ان کی قیادت نے جہاں پارلیمان میں اپنی موجودگی کا حق ادا کیا وہیں انھوں نے علامتی طور پر دھرنے اور مظاہرین و قائدین کے مطالبے کی پرزور حمایت بھی جاری رکھی۔ تاہم ان کی جماعت نے دھرنے میں شرکت یا عدم شرکت کے حوالے سے کوئی واضع پالیسی بھی نہیں دی۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی پنجاب کے مقامی نوجوان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت بھی نوش کرگئے۔
فضل الرحمان صاحب اس اہم معا ملے پر بہت پرویشان رہے۔ ان کے لیے یہ معاملہ دودھاری تلوار تھا۔ اگر مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے تو حکومت کی نگاہوں میں گرتے۔اور اگر نہ کریں تو علمائے دیوبند کو مشکل میں ڈالتے۔ لہذا آئیں بائیں شائیں سے مناسب کو ئی طرز عمل سجھائی نہیں دیا۔
اب اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ دیوبند اور سلفی علماء بھی اپنی اپنی کوئی سبیل تو نکا لیں گے ہی حضور نبی پاک سے اپنی محبت کو ثابت کرنے کے لئے۔ اور ڈرتا ہوں اس وقت سے جب ہر ایک جانب” حب رسول “کے تقاضے بھی نبھائے جا رہے ہوں گے اور ” بیرونی آقاؤں” کے خوابوں میں رنگ بھرنے کا عمل میں جاری ہوگا۔
ایک اور خطرہ جو درپیش ہے وہ ہے اداروں کا آپس میں الجھاؤ۔ سپریم کورٹ کے آرڈرز کی پاسداری نہ کرنا، ان پر عمل نہ کروانا اور از خود ثا لث بن جانے پر عدلیہ نے فوج کو اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔۔ جو بہر حال اچھا عمل تو ہے مگر اس میں نقصان کا امکان بہت ہے۔ جس کی نشاند ہی جج صاحب نے بھی اپنے ریمارکس میں کردی ہے کہ ” مجھے اندازہ ہے کہ میں لاپتہ افراد میں شامل ہوسکتا ہوں ”
اور تیسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ جس کی اولین ترجیج اسلا م ہی ہے۔ وہ تذبذب میں مبتلا ہوگیا ہے کہ اسلام کی حقیقی تعبیر آخر ہے کیا ؟؟ اگر گالم گلوچ۔ لشتم پشتم کی ہی سیاست عین اسلام ہے تو پھر وہ اسلام کونسا ہے جو اصل اسلام ہے ؟
عوام اب بھی اسی شش و پنج میں ہیںکہ اس تمام تر معرکے کے بعد مسئلہ حل ہوگیا ہے ؟
یعنی” کیا وہؔ سڑک ہوئی تمام؟”