وقاص احمد
’’سب کا احتساب ہونا چا ہیے، کسی کو نہیں چھوڑا جائے۔ سارے بدمعاش اشرافیہ کا کڑا احتساب ہو‘‘۔ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف عدالت عظمیٰ کیس اور اسی سلسلے میں جے آئی ٹی کی کارروائیوں اور اس کی رپورٹ کے بعد ان آوازوں اور نعروں میں شدت آگئی ہے کہ کسی کو نہ چھوڑا جائے۔
لیکن جب میں ان آوازوں اور نعروں کو سنتا ہوں تو مجھے تعجب کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ جس ملک میں 70 سال سے احتساب کا کوئی کلچر، کوئی نظام وجود میں ہی نہ آسکا ہو جہاں Executive کے نیچے کوئی ادارہ معمولی درجے میں بھی آزاد اور خود مختار نہ کیا جاسکا ہو۔ جہاں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت کا ایک مقصد کھل کر ایک دوسرے کو کرپشن اور قومی خزانے کی لْوٹ کی آزادی دینا ہو۔ اِسراف کی تو خیر سرے سے کوئی بات ہی نہ ہو۔ جس ملک کی پارلیمان میں گزشتہ 9 سالہ بلا تعطل جمہوریت میں کرپشن کے خلاف کسی ٹھوس تو دور کی بات کسی پھسپھسے قانونی بل کو بھی پیش کرنے کی نوبت نہ آئی ہو۔ وہاں آج تقریباً تمام تجزیہ نگار اس بات پر مْصر ہیں کہ اب احتساب کا پہیہ چل پڑے گا سب کے لیے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم کا احتساب کسی عام احتسابی نظام کی وجہ سے نہیں شروع ہوا جس طرح امریکا اور یورپ میں ہوتا ہے۔ بلکہ ایک غیر معمولی انکشاف (Panama Leaks) اور پھر تمام پاکستانی اداروں کے ٹھنڈ پروگرام کے بعد عمران خان کے غیر معمولی اعلان یعنی اسلام آباد کو بند کر دینے کے اقدامات کے بعد ہی شروع ہوا۔ اس کے بعد کے واقعات بھی معمول اور منظم کارروائیاں نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کے غیر معمولی اقدامات کا نتیجہ ہیں جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت جو ٹرائل کورٹ نہیں ہوتی اور جہاں آئینی پٹیشنز یا اپیلوں ہی کی اکثر سماعت ہوتی ہے، ہم نے دیکھا کہ وہ خود دستاویزات، شواہد نہ صرف اکھٹا کر رہے تھے بلکہ ان کا جائزہ لیکر سوالات بھی کر رہے تھے۔ ایک سو بیس دن سے اوپر کی روزآنہ کی بنیاد پر سماعت معمولی بات نہیں ہے۔ پھر فیصلے میں اپنی تشفّی کے لیے جے آئی ٹی بنانا اور یہ جانتے ہوئے (جس بات کا میں بھی حوالہ دے رہا ہوں) کہ تمام ادارے حکومت کے ماتحت چوپٹ ہوچکے ہیں بلکہ نیب کے متعلق تو عدالت کے ریمارکس تھے کہ یہ ہمارے لیے وفات پا چکی ہے، عدالت عظمیٰ نے انہی حکومتی اداروں میں سے اپنے چنے ہوئے افسران پر مبنی جے آئی ٹی بنانا کیا معمول کی کارروائی تھی؟ اور جے آئی ٹی نے جس دباؤ میں کام کرکے جو رپورٹ دی کیا وہ معمول کی بات تھی؟
حد درجہ کرپٹ حکومتی نظام میں سے حکومت کے خلاف تحقیقات کروا لینا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ جس کی وجہ یہی تھی کہ ریاست کا ایک ہی سول ادارہ ہے اور وہ بھی اعلیٰ سطح پر جو حکومت کے دائرہ اختیار میں اس طرح نہیں آتا جس طرح اور ادارے آتے ہیں۔ تو کیا ہم سب کا خیال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اب یہی کرتی رہے گی کہ ایک ایک کرکے تمام بڑی مچھلیوں کے لیے جے آئی ٹی بناتی رہے گی۔ اور حکومتی ادارے ٹیمپرنگ اور جعلی کاغذات بناتے رہیں گے اور عدالت عظمیٰ کے فاضل جج سماعت کے دوران ان میں سے غلطیاں نکالتے رہیں گے؟
احتساب ایک باقائدہ نظام کی صورت میں ایسے نہیں چل سکتا۔ ہاں ایک دو سال کے لیے الیکشن موقوف کرکے عدالت عظمیٰ ہی اگر کوئی مہم چلاتی ہے تو وہ میرے خیال میں خود آئین سے متصادم بات ہوگی اور ملک میں بے چینی پیدا کرے گی۔ عدالت عظمیٰ خود کبھی نہیں یہ چاہے گی۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ ملک احتساب کے لیے غیر منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے کیوں کہ یہ امر خود عدلیہ اور فوج کے لیے نقصاندہ ہے اور ہمیں اس کا تجربہ بھی ہے۔
بات وہیں آ کر رکے گی کہ منتخب حکومتوں کو خاص طور پر اس نئی صورت حال میں اب ایک شفّاف، آزاد، غیر جانب دار احتسابی ادارہ بنانا پڑے گا جس میں کم از کم میرے مطالعے کے مطابق مندرجہ ذیل اوصاف ہوں۔
1۔ ادارے کا سربراہ ایک خاص شفاف طریقہ کار سے چنا جائے۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کے تقرر کا طریقہ کار مناسب ہو سکتا ہے۔
2۔ ادارے کے سربراہ کے اختیارات اپنے ادارے میں چیف جسٹس کی طرح ہوں۔ ایسی مثالیں ہمیں کئی ترقی یافتہ ممالک کے احتسابی نظام میں مل جاتی ہیں۔
3۔ ادارے کے ملازمین کی شکایت ادارے کے سربراہ سے اور سربراہ کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجی جا سکتی ہیں۔ چاہے شکایت حکومت ہی کو کیوں نہ ہو۔
4۔ ادارے کا اپنا تحقیقاتی عملہ ہو جیسا کہ نیب میں ہے۔
5۔ ادارے کا بجٹ قانونی طور پر متعین ہو۔ حکومت کے مرہونِ منت نہ ہو۔
6۔ تبادلے اور تنخواہوں میں اضافے اس ادارے کا اپنا معاملہ ہو۔ عدلیہ اور فوج کے نظام اس کی مثال ہیں۔
7۔ ان آزادیوں کے باوجود چوں کہ ملک کا سربراہ یعنی وزیرِ اعظم یہی اصلاً ملک سے کرپشن کے خاتمے کا ذمے دار ہوتا ہے اس لیے اس ادارے کی ایگزیکٹیو سے غیر ضروری مخاصمت بھی ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ بھی اپنی نگران کمیٹی میں اس ادارے کی خدمات قانونی طور پر لے سکتی ہے اور حکومت بھی وفاقی تحقیقاتی اداروں کے اینٹی کرپشن ونگ کو، FBR کو ضرورت کے وقت اس احتسابی ادارے کے ماتحت کر سکتی ہے۔
غرض کہ سوچ بچار کرکے اور ترقی یافتہ ممالک کے تجربات دیکھ کر مگر پاکستان کے خاص زمینی حقائق (کمزریوں) کو مدِّ نظر رکھ کر ایک نیا احتسابی ادارہ بنانا اشد ضروری ہے۔ موجودہ صورت حال میں جب عدالت عظمیٰ نے یہ غیر معمولی بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو وہ پارلیمنٹ کو یہ ہدایت بھی دے کہ وہ اگلے 6 مہینوں میں یہ کام کرلے۔ بصورت دیگر جس طرح عدالت عظمیٰ نے اپنی نگرانی میں جے آئی ٹی بنادی کہیں عدالت عظمیٰ اپنی نگرانی میں پارلیمانی کمیٹی بھی نہ بنادے۔ خیر یہ بات طنزاً کہی گئی، لیکن اس میں پیغام یہی ہے کہ آخر وہ وقت کب آئے گا جب پارلیمنٹ احتساب اور کرپشن کے خلاف کوئی جامع، سقم سے پاک، ٹھوس قانون بنائے گی۔ کیا اب بھی نہیں؟