وفاقی وزیر احسن اقبال کس کی حمایت کر رہے ہیں

255

مظفر ربانی

احسن اقبال کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس خاندان کے سیاسی اور مذہبی پس منظر اور خاص طور پر یہ کہ وہ کس عظیم خاتون کی اولاد ہیں جو دراصل قانون تحفط ناموس رسالت کی محرک رہی ہیں آج قادیانیوں کی خوشنودی کے لیے ختم نبوت پر حملہ آوروں کو کٹہرے میں لانے کے بجائے ان کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ استغفر اللہ۔ اوائل اکتوبر ۲۰۱۷ میں قومی اسمبلی میں کیسی چابک دستی سے اسمبلی ارکان سے لیے جانے والے حلف نامے کو تبدیل کیا گیا۔ ہم پہلے بھی انہیں کالموں اور سوشل میڈیا پر اس طرف نہ صرف نشاندہی کر چکے ہیں بلکہ اپنے خدشات کا بھی برملا اظہار کر چکے ہیں کہ ۹۰ فی صد سیکولر پارلیمنٹ سے آئینِ پاکستان کی تمام اسلامی شقوں اور بالخصوص قانون ناموس رسالت کو شدید خطرات لاحق ہیں اور معدودِ چند ایک اسلامی جماعتوں کے کسی رکن پارلیمنٹ کو اس قانون کی حساسیت کا احساس نہیں اور ہمارے خدشات اس وقت حقیقت بن گئے جب رکن قومی اسمبلی سے لیے جانے والے حلف میں ترمیم کر دی گئی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی وہ تو بھلا ہو چند ایک ارکانِ قومی اسمبلی کا کہ جن کو بروقت اس واردات کا احساس ہو گیا اور بات طشت از بام ہو گئی پھر پورے ملک میں ایک اشتعال کے ساتھ اس بات کی بھی تشویش پھیل گئی کہ خدانخواستہ کوئی بھی سیکولر اسمبلی کسی بھی وقت ناموس رسالت کے قانون پر بھی وار کر سکتی ہے چاہے اپنی لاعلمی میں یا نواز شریف کی طرح کفار کو یقین دہانی کے ذریعے، لیکن یہ اب کوئی راز کی بات نہیں کہ ہمارا قانون ناموس رسالت کفار کی ہٹ لسٹ پر آ چکا ہے اور آئندہ انتخابات میں ایسے متعدد افراد کو اسمبلیوں میں پہنچانے کی کوشش کریں گے جو یہ حرکت کر سکیں ایک بڑی کھیپ اس وقت بھی برطانیہ امریکا اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں موجود ہے جن سے یہ ناپسندیدہ کام لیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ کہ حکومت وقت نے حلف نامہ برائے ختم نبوت کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا ہے، مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت کسی اور حوالے اور کسی اور گروپ کی طرف سے نہیں کی جائے گی۔ دین سے رغبت رکھنے والے اور علمائے کرام کی یہ بڑی ذمے داری ہے کہ ایسی قانون سازی کریں بلکہ اسمبلیوں اور سینیٹ تک سے یہ بل بھی پاس کروالیں کہ آئندہ آئین میں شامل کسی اسلامی شق میں کوئی ترمیم کسی طور پر نہیں کی جا سکے گی بلکہ اس کی ترمیم کا کوئی بل بھی ایوان میں پیش نہیں کیا جا سکے گا اور نہ صدر پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اس ضمن میں کو ئی آرڈیننس ہی جاری کر سکے۔ اس پوری داستان کا مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر ہونے والے دھرنے کے خلاف سارا میڈیا اور حکومت صف آرا ہو چکے ہیں مگر دھرنے والوں کے صرف دو مطالبات کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا سارے چینلز ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ عوام کو شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
2012میں اس وقت میڈیا کو عوام کی تکالیف کا کچھ بھی احساس نہ ہوا، جب دو ماہ تک جگہ جگہ راستے بند کردیے گئے اور راولپنڈی کے مدرسے میں گھس کر معصوم دینی طالب علموں کو بے دردی سے ذبح کرتے رہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ صرف اور صرف قادیانیوں کو خوش کیا جا رہا ہے وگرنہ اگر ختم نبوت پر حملہ آور کسی شخص کے خلاف کارروائی کی جا تی ہے تو یورپ حکومت وقت کی تنابیں کس دے گا کیوں کہ پورا یورپ بشمول امریکا تو قانون تحفظ رسالت کو ہی خاکم بدہن ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ ’’خطرہ‘‘ وہ شخص مول نہیں لے سکتا جس کی ماں ہی اس قانون کے بنانے والوں کی صف اول میں شامل رہی تھیں، اللہ ان کو اس کار عظیم کا اجر عظیم عطا فرمائے اور بیٹے کے کرتوتوں سے ان کی روح کو تڑپنے سے بچائے، مولانا فضل الرحمن حلف نامے میں تبدیلی پر جو رسمی اور ہلکا رد عمل دیا ہے وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ نواز شریف کے معاشی جرائم کے علاوہ ایک اور بہت بڑا جرم یہ ہے کہ پہلے پہل نواز شریف نے خود کو مذہب سے قریب اور اسلام کے لیے کچھ کرگزرنے کا تاثر دیا جس کی بنا پر آج تک دین اسلام سے مخلص سیاست دانوں کی بڑی تعداد ان ساتھ سیاست کے گھوڑے پر رواں دواں ہے جو ابھی تک نواز شریف کو اسلام سے مخلص سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں حالاں کہ بیس سال پہلے نواز شریف نے مرحوم و مغفو ر قاضی حسین احمد کو دو ٹوک جوا ب دے دیا تھا کہ اسلام نواز شریف کا مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ اب ان کی سیاسی گاڑی پٹڑی پر آچکی تھی اور ہر طرف سے ’’ہن‘‘ برسنا شروع ہو چکا تھا نواز شریف نے ان اسلام پسند نوواردان سیاست جو اسلام سے گہرا عشق رکھتے تھے کو اپنے جال میں پھنسا کر پہلے لبرل اور اب قادیایوں کا پشتی بان بنا دیا ہے اس حوالے سے بھی نواز شریف پر آئین پاکستان کی اسلامی شقوں کے حوالے سے مقدمہ قائم کیا جا سکتا کہ کیسے نواز شریف نے اسلام پسندوں کی اتنی بڑی تعداد کو بے دین بلکہ ناموس رسالت کے قانون کے سامنے صف آرا کر دیا۔