ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی۔۔۔ 

383

اب تک تو یہی ہوتا رہا ہے کہ سیاست دانوں، سیاسی پارٹیوں یا اکثر مذہبی جماعتوں کی جانب سے ہی افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے عدالتوں کی جانب سے افواج پاکستان کے کردار پر مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو اس موقف کو مضبوط بنا رہے ہیں کہ فلور آف دی ہاؤس سے اٹھنے والی آوازیں، سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات اور اعتراضات میں وزن تھا۔ بے شک بعض معاملات میں عدالت کا لہجہ کسی حد تک سخت ضرورہے لیکن اس کے سخت اور تلخ لہجے میں ایک درد ہے اور یہ درد ملک کی سلامتی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
جسٹس شوکت عزیز کے اٹھائے گئے سوالات کے بعد ان کی جانب سے ان خدشات کا اٹھایا جانا کہ اب خود ان کی عزت و آبرو اور ان کے اٹھالیے جانے کی بھی کوئی ضمانت نہیں، ایک ایسی حقیقت ہے جس کا گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو سامنا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ’’مسنگ‘‘ پرسن کا معاملہ کافی حد تک ایک خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس سارے طریقۂ کار میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ زیادہ تر اس قسم کے کام سرکاری وردی کے بغیر انجام دیے جارہے ہیں جس سے اس بات کا خدشہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ اسی قسم کی کارروائی وہ گروہ اور تنظیمیں بھی کر سکتی ہیں جو دہشت گردی اور اِغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ نہ تو اٹھائے جانے والوں کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کے علم میں یہ بات لائی جاتی ہے کہ آیا وہ کس کی قید میں ہیں، البتہ ان میں سے کچھ مردہ حالت میں کہیں نہ کہیں برآمد ہوجاتے ہیں۔ ایسا زیادہ تر ان افراد کے ساتھ ہوتا ہے جو ’’ادارے‘‘ کے خلاف تنقید کرنے والے ہوتے ہیں یا اس کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اگر اس کو سچ مان لیا جائے تو جسٹس شوکت عزیز کے خدشات بے جا نہیں۔
ابھی تک تو یہ بات تو ہائی کورٹ کی سطح تک تھی لیکن اب ملک کی سب سے بڑی عدالت جس کو ’’عدالت عظمیٰ‘‘ کہا جاتا ہے، اس نے بھی جس شدت کے ساتھ کچھ سوالات اٹھائے ہیں اور اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک بہت ہی فکر انگیز اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور اگر اس بات پر غور نہیں کیا گیا تو کچھ معلوم نہیں اس ملک کی بنیادوں کے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے۔ 30 نومبر 2017 کو لیے جانے والے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ملک کی بنیادیں سازش کے تحت کھوکھلی کی جا رہی ہیں‘‘۔
تفصیل کے مطابق پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی بنیادیں ایک سازش کے تحت کھوکھلی کی جا رہی ہیں اور خفیہ ادارے ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ: ’’یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت اور فوج الگ الگ ہیں جب کہ فوج حکومت کا حصہ ہے اور دونوں غریب عوام کے پیسے سے پلتے ہیں‘‘۔ عدالت نے دھرنے سے متعلق آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس کو مسترد کر دیا۔ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا تھا کہ: ’’خفیہ اداروں کی طرف سے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ دھرنا دینے والوں کے پاس ڈنڈے اور آنسو گیس کے شیل چلانے والی بندوقیں کیسے پہنچیں‘‘۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ: ’’ان رپورٹوں میں دھرنے کے دوران ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہمیں جامع تفصیلات فراہم نہ کرنے سے سوالات اٹھیں گے کہ خفیہ اداروں پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے‘‘۔
اس آپریشن کے دوران پولیس والے شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ’’ہماری نہ سہی وردی کی عزت تو رکھ لو‘‘۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ: ’’کیا فیض آباد چوک پر ملک کے مستقبل کا سودا ہو گیا ہے؟‘‘۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ملکی ایجنسیاں کہاں ہیں، آئی ایس آئی اور آئی بی کے دفاتر ہر جگہ پر موجود ہوتے ہیں اور اْنہیں بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ان مظاہرین کو ڈنڈے اور دیگر سامان کس نے فراہم کیا‘‘۔ بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے دھرنا ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ: ’’حکومت سے فوج الگ نہیں ہے اس لیے اسے بدنام نہ کیا جائے‘‘۔ اْنہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نظریے پر ہی چلے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ کون سا دین ہے جو نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیتا ہے‘‘۔
اس بات سے پوری دنیا واقف ہے کہ فیض آباد چوک پر کیا کیا کچھ ہوتا رہا ہے اور کیسی کیسی زبان استعمال کی گئی ہے جس سے دین اسلام کو اور پاکستان کی ساکھ کو کتنا دھچکا لگا ہے۔ ہم جس نازک دور اور بحرانی کیفیت سے نکلنے کی مسلسل جدو جہد میں مصروف ہیں اس سے نکلنا تو دور کی بات، وقت اور حالات کی دلدل میں مزید دھنستے جارہے ہیں۔ ایسے موقع پر عدالتوں میں دیے جانے والے ریمارکس اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ معاملہ کسی بھی لحاظ سے غیر سنجیدہ نہیں اور اگر اس پر نہایت درد دل کے ساتھ غور نہیں کیا گیا تو حالات مزید سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹھائے جانے تحفظات بھی اسی نوعیت کے تھے۔ جب جسٹس شوکت عزیز کے ریمارکس سامنے آئے تو کچھ حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز کی شخصیت ’’متنازع‘‘ ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی باتیں عام ہیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرتی ہے یا ریمارکس پاس کرتی ہے تو سارے پاکستان کو اس پر کبھی اتفاق نہیں ہوتا۔ جس کے خواہش یا سوچ کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے وہ واہ وا کر رہا ہوتا ہے اور کسی کو یہ فیصلہ یا ریمارکس اپنی سوچ اور خواہش کے خلاف لگ رہا ہوتا ہے وہ اس پر ناخوش ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی ایک جیسی بات کئی جانب سے اٹھنے لگے تو پھر موافق اور مخالف کو سنجیدہ ہوجانا چاہیے۔
ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز نے بھی اسی قسم کے نقاط اٹھائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’آئین کے تحت فوج معاہدے میں کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ فوج کا میجرجنرل کیسے ثالث بنا؟ سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ایگزیکٹو سے الگ ہیں؟ قوم کے ساتھ کب تک تماشا لگا رہے گا؟ فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والوں میں معاہدہ کرایا، یہاں ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گیا؟ فوج اپنی حدود میں رہے، ایجنسیوں نے دھرنے کے ذریعے دارالحکومت بند کرنے کی تیسری کوشش کی، یہ تاثر دیا گیا کہ ہرمرض کی دوا فوج ہے، اپنے ملک کے ادارے ملک کے خلاف لگے ہوئے ہیں، معاہدہ اس لیے کیا گیا کہ کیوں کہ آپ کا پروجیکٹ مکمل ہو گیا، یہ بھی پتا چل جائے کہ دھرنے کے لیے فیض آباد پوائنٹ کا انتخاب کس نے کیا، جس کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے وہ ثالث بنا ہوا ہے، آپ نے پولیس کو جان بوجھ کر ذلیل کروایا، کیا فوج اقوام متحدہ ہے جو معاہدہ کرائے؟۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹھائے جانے والے سوالات ہوں یا عدالت عظمیٰ میں اٹھائے گئے خدشات، ان دونوں میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک واضح ہو چلی ہے کہ ایجنسیاں ہوں یا ادرے یا حکومت، سب کے سب اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں بڑا کون ہے۔ کوئی یہ بات سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم سب سے بڑی ’’ریاست‘‘ ہے۔ ریاست ہے تو سب ہیں اور ریاست نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اس لیے دیکھا جائے تو ریاست کا ہر فرد اگر کوئی گلہ کرتا ہے، ریاست کو مورد الزام ٹھیراتا ہے، اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ حقیقت میں ریاست کی کسی زیادتی، ظلم اور غلط پالیسوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ملک میں انصاف نہیں ہوگا، روزگار نہیں ہوگا، فرقہ بندیاں ہوں گی، سیاست کرنا جان جوکھم کا کام بن جائے گا، جہاد کے نام پر عسکری تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہو جائیں گی اور وہ ملک کے نظام کو اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیں گی۔ ادارے لوگوں کو بغیر خبردار کیے اٹھانا شروع کردیں گے، قانون نافذ کرنے والے ادا رے ’’لاقانونیت‘‘ پر اتر آئیں گے، اپنے خلاف کسی کی ’’ہوں‘‘ بھی برداشت نہیں کریں گے، عدالتوں پر دباؤ بڑھائیں گے، مرضی کے فیصلے لیے جانے لگیں گے، عسکری ذہنیت رکھنے والے گروہ اتنے طاقتور ہوجائیں گے کہ وہ جب چاہیں نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیں گے، یہ لینڈ مافیا والے، یہ ٹرانسپورٹرز جب چاہیں گے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے، ایجنسیاں جب چاہیں گی وہ کمزور سے کمزور گروہ کو کوہ گراں بنا کر کھڑا کردیں گی اور سیاسی پارٹیوں کو توڑ پھوڑ کرکے رکھ دیں گی تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ ریاست کو اپنا وجود برقرار رکھنا کس قدر دشوار تر ہوجائے گا۔ یہ ساری باتیں مذاق نہیں ہیں کہ بس ان کو صرف سننے کی حد تک سنا جائے۔ جب یہ باتیں عدالتوں میں بھی اٹھنے لگیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر فرد، گروہ، پارٹی اور پاکستان کا ہر ادارہ اپنا اپنا محاسبہ کرے اور اگر اس پر بھی غفلت کے بادل نہ چھٹے اور ہم اپنی اپنی روش چھوڑنے اور بدلنے پر تیار نہ ہوئے تو آنے والے کل کی جانب سے ہمیں بہت خوش گمان نہیں ہونا چاہیے۔