جادووہ جو سر چڑھ کر بولے

230

دھرنا تو ختم ہوگیا لیکن اپنے پیچھے سوالات بہت سارے چھوڑ گیا‘ دھرنے کے دنوں میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں زندگی سسک سسک کر جی رہی تھی‘ تاہم لوگ خاموش تھے‘ کہ بے بس تھے اس دھرنے نے سب سے بڑا یہ پیغام دیا کہ حکومت کسی کی بھی ہو‘ کیسی بھی ہو‘ اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بھی رکھتی ہو پھر اپنی تاثیر نہیں رکھتی۔ جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے، جادو اس زور سے سر چڑھ کر بول رہاتھا کہ فسادات پر قابو پانے کے لیے فوج کی تعیناتی کا حکومتی نوٹیفیکیشن سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصروں کے ساتھ زیر گردش تھا، جواباً پاک فوج کی جانب سے حکومتی نوٹیفکیشن پر اعتراضات پر مبنی خط جیسی خفیہ دستاویز بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں خاموش تھیں اور مزے لے رہی تھیں پیپلزپارٹی کا بیانیہ تو یہی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور یہ کہ ائندہ عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں اس کے بہت سے رہنماء اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ حکومت چلتی نظر آتی ہے نہ آئندہ عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے نہ صرف حکومت بلکہ سیاسی نظام کی بے یقینی پر یقین کامل ہونے کے بہت سے اشارے مل رہے ہیں، افواہوں کا سمندر ہے ہر لمحہ بگڑنے والی صورت حال تھمتی نظر نہیں آتی۔
دھرنا21ویں روز ختم ہوا اور کئی چیزوں کو بے نقاب کر گیا اس کے حوالے سے بحث ہوتی رہے گی اور لکیر پیٹنے والے لکیر پیٹتے رہیں گے وزیر قانون کا استعفا لیا گیا ہے، اگر پہلے ہی لے لیا جاتا تو حکومت کی اتنی سبکی ہوتی اور نہ ہی ملک میں اس قدر ہیجان بپا ہوتا۔ دھرنے میں جو کچھ سو ہوا‘ المیہ تو یہ ہے کہ آپریشن میں لوگوں کی ہلاکت کے بعد وزیر داخلہ اس بات ہی سے مکر گئے کہ آپریشن ان کے حکم سے ہوا، دھرنا اس لیے ہوا کہ ختم نبوت کا معاملہ چالیس سال پہلے آئین میں طے کردیا گیا تھا، پھر اسے دوبارہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟ شرارت تو کسی نہ کسی نے کی تھی اور خفیہ طور پر کی جانے والی حرکت بھی حرمت رسول کے صدقے میں سامنے آ گئی۔ پھر جو اس کا ردعمل ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس سارے بحران اور اضطراب کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اب کسی کو مستقبل میں یہ ہمت نہیں ہوگی کہ وہ ختم نبوت کے مسلمہ قانون سے چھیڑ چھاڑ کر سکے۔
ختم نبوت اسلام کی اساس ہے اور اسلام پاکستان کی اساس اس پر حملہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں وزیر قانون سے استعفا تو لے لیا گیا ہے، لیکن ابھی وہ راز تو سامنے نہیں آئے کہ یہ سب کچھ کس لیے اور کس کے ایما پر کیا گیا۔ کیا واقعی یہ سب امریکا اور مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کا ایک ایجنڈا تھا؟ اتنے بڑے ردعمل کے بعد ان سب کو بھی یہ پیغام مل گیا ہو گا کہ ختم نبوت کا معاملہ بیس کروڑ عوام کے بنیادی عقیدے سے تعلق رکھتا ہے اور اس عقیدے کے منکر کسی صورت مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں بہر حال یہ بحران ٹالنے میں کسی منفی پہلو کے بجائے مثبت پہلو ہی تلاش کرنا چاہیے کہ سول و آرمی کے درمیان ایک مثالی آہنگی نظر آئی دونوں طرف سے دلائل دینے کے بجائے ایک اچھے مقصد کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا گیا اب یہ دور کی کوڑی نہ لائی جائے کہ آرمی چیف نے ڈکٹیشن دی، جسے وزیر اعظم نے مان لیا۔
آئی ایس پی آر کے ہر پریس ریلیز میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا کہ کوئی ایسا تاثر نہ جائے، اس لیے چیف آف آرمی اسٹاف کی باتوں کو تجاویز کہا گیا۔ آپ دیکھیں کہ جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات کے بعد کئی پہلوؤں پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا تو ڈیڈ لاک بھی ختم ہوتا چلا گیا۔ حکومت نے زاہد حامد کے استعفے کی شرط مان لی اور دھرنا دینے والے پوری حکومت کو گھر بھیجنے کی شرط سے دستبردار ہو گئے اس معاہدے کے چند گھنٹوں بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اکٹھے سعودی عرب جانا پڑا۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی دورہ نہیں، اس کا ہماری معیشت اور سلامتی سے گہرا تعلق ہے ظاہر ہے کہ یہ دھرنا ختم نہ ہوتا اور پورے ملک میں وہی گھیراؤ جلاؤ کی صورت حال ہوتی جو ایک روز پہلے تھی تو وزیر اعظم اور آرمی چیف کیسے ملک چھوڑ کر جا سکتے تھے؟
زاہد حامد کا استعفا ملک کے مفاد اور سلامتی پر تو مقدم نہیں حکومت کو مان لینا چاہیے کہ اس نے اس ایشو کو بری طرح مِس ہینڈل کیا وزراء اپنی چالاکی کے ساتھ مسئلے کو دبانے کی کوشش کرتے رہے ایک عام تاثر یہ ہے کہ اسلام آباد آپریشن عدلیہ کے احکامات کی وجہ سے عجلت میں کیا گیا اور سوموار آنے سے پہلے پہلے کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو طلب کر رکھا تھا، عدلیہ کے حکم پر عملدرآمد کی کوشش کی گئی۔ مناسب ہوم ورک نہ ہونے کے باعث یہ آپریشن بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوگیا اور اب وزیر داخلہ اس ناکامی کی ذمے داری نہیں لے رہے اور یہی استدلال پیش کررہے ہیں کہ انتظامیہ نے آپریشن عدلیہ کے حکم پر کیا یقیناًاسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے کسی آپریشن کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ فیض آباد کو خالی کرانے کی ڈیڈ لائن دی تھی حکمت عملی وضع کرنا تو انتظامیہ کا کام تھا، مگر شاید عدالتی حکم کے دباؤ کی وجہ سے انتظامیہ مکمل تیاری کے بغیر میدان میں کود پڑی اور اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جمہوریت کو ایک طاقت اور ایسا طرز حکمرانی نہیں بنا سکے جو اپنے مسائل آپ حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو؟ اس معاملے پر ضرور سوچنا ہو گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ’غیر جانبداری‘ کس نوعیت کی تھی سیاسی جماعتوں نے سچ بولنے کے بجائے حکومت کو زچ کرنے کو ترجیح دی، وہ انتظامیہ کی مجبوری کا تماشا دیکھ رہی تھیں۔ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ گلی گلی میں نوازشریف کو گالیاں پڑ رہی ہیں اور اب وہ عوامی عدالت میں جانے کا شوق پورا کر لے۔ شیخ صاحب کے اس ٹوئٹ نے سازش، سازشیوں اور ان کے مقاصد کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے ’’جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ علامہ اقبال نے یہ اہم ترین تصور دیتے ہوئے صرف مذہب کے زریں اصولوں ہی کو سامنے رکھ کر دیا ہو گا مگرہمارے دھرنا ایکسپرٹ کودیکھ کر نہیں اس تڑکے نے سیاست کی اصل ہانڈی کو بھی جلا کے رکھ دیا ہے حکومت ڈری، سہمی اور خوف زدہ ہے۔ دھرنے کا یہ اختتام ایک بڑی تباہی کے آغاز کا اشارہ دے رہا ہے حکومت نے ابھی ایک دریا عبور کیا ہے اور دوسرے دریا کے کنارے پر دھکیلا جا رہا ہے۔