دھرنا اور نااہل شخص کی حکمرانی

437

تحریک لبیک یارسول اللہ کا دھرنا بیس بائیس روز تک جاری رہنے، سات لوگوں کی جان لینے، بے شمار لوگوں کو زخمی کرنے اور قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے بعد ایک معاہدے کے تحت اختتام پزیر ہوگیا۔ دھرنے والوں کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ عقیدہ ختم نبوت میں نقب زنی کے ذمے دار وزیر قانون کو کابینہ سے نکالا جائے۔ زاہد حامد کے استعفے سے ان کا یہ مقصد پورا ہوگیا اور وہ پرامن طور پر منتشر ہوگئے، لیکن جو کچھ ہوا اس کی تمام تر ذمے داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے جسے وزارت عظمیٰ سے نااہل ہونے والا ایک شخص پیچھے بیٹھ کر چلا رہا ہے اور اس کے آگے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور تمام وزرا بے بس ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ شخص نااہل ہونے کے باوجود حکمران پارٹی کی قیادت کررہا ہے اور پارٹی ڈسپلن کے تحت وزیراعظم ہوں یا کوئی وزیر اس کے احکامات ماننے پر مجبور ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وزیر قانون زاہد حامد کو کابینہ سے نکالنے کامطالبہ سب سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیا تھا جو نااہل شخص کے چھوٹے بھائی ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ ان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کیے جاتے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور وفاقی وزیر قانون کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن ان کی بات سُنی اَن سُنی کردی گئی۔ جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بھی یہی مطالبہ دہرایا لیکن اس مطالبے کو منظور کرنے کا اختیار نہ وزیراعظم کو تھا، نہ وفاقی کابینہ کو، نہ ہی پارلیمنٹ کو۔ یہ اختیار صرف اس نااہل شخص کے پاس تھا جو پیچھے بیٹھ کر حکومت چلا رہا تھا۔ اصولاً وزیر قانون ہی کا استعفا بنتا تھا کہ حکومت کی طرف سے آئینی ترمیمی بل پیش کرنے اور پارلیمنٹ سے منظور کروانے والے وہی تھے۔ انہوں نے ہی اس بل کی نوک پلک سنواری تھی اور وہی جانتے تھے کہ اس بل میں کیا ہے، جب کہ اس متنازع بل پر مشاورت کے لیے سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل جو مشاورتی کمیٹی قائم کی گئی تھی اس کی حیثیت براتیوں سے زیادہ نہ تھی، برأت کے دولہا تو وزیر قانون ہی تھے، جب حلف نامے کا تنازع کھڑا ہوا تو سب کی نظریں زاہد حامد کی طرف اُٹھیں کہ انہوں نے ہی یہ متنازع بل پارلیمنٹ میں پیش کیا اور نہایت عجلت سے منظور کروایا تھا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ عقیدہ ختم نبوت پر کوئی آنچ آئے۔ چناں چہ اُن لوگوں نے اس بل میں کی گئی عیاری پکڑی جو بظاہر سیدھے سادے مولوی تھے اور قانون کی باریکیوں میں اُلجھنا جن کا کام نہ تھا۔ پھر جب بات کھلی تو کھلتی چلی گئی اور پوری پارلیمنٹ سراپا احتجاج بن گئی۔ اس احتجاج میں خود حکمران جماعت کے لوگ بھی شامل تھے۔ وزیر قانون نے اس موقعے پر تاویل پیش کی کہ اس بل پر گزشتہ 2 سال سے کام ہورہا تھا اور تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے اس کی ڈرافٹنگ کی گئی ہے لیکن ان کی یہ تاویل احتجاج کو سرد نہ کرسکی۔ بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس نے آئینی بل میں سابقہ حلف نامے کو ازسرنو بحال کرکے اور اسے پارلیمنٹ سے دوبارہ منظور کرواکے بظاہر گلو خلاصی کی کوشش کی لیکن بات پھر بھی نہ بن سکی۔ اپوزیشن جماعتیں اور پارلیمنٹ سے باہر مذہبی عناصر اس پر مُصر رہے کہ وزیر قانون استعفا دیں اور حلف نامے میں تحریف کرنے والے عناصر کو بے نقاب کرکے انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود اس معاملے میں دلچسپی لیتے اور سرکاری سطح پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر اس بحران کو کسی انجام تک پہنچاتے لیکن وہ تو خاموش رہے۔ البتہ نااہل سابق وزیراعظم نے معاملے کو دبانے کے لیے اپنے طور پر راجا ظفر الحق کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی اور کہا گیا کہ یہ کمیٹی 2 دن میں اپنی رپورٹ پیش کردے گی لیکن نیت چوں کہ معاملے کو دبانے کی تھی اس لیے کم و بیش ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود تادم تحریر رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور راجا ظفر الحق بھی بار بار اپنا بیان بدلتے رہے۔ اس طرح معاملہ اُلجھتا چلا گیا۔ حکومت سے باہر تمام مذہبی و سیاسی عناصر چاہتے تو یہی تھے کہ وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوجائیں اور انہیں اخلاقاً اس بحران کے آغاز ہی پر استعفا دے دینا چاہیے تھا لیکن نہ انہوں نے پہل کی نہ ان کے مخالفین کوئی عملی قدم اُٹھانے پر آمادہ ہوئے۔ یہ اعزاز تحریک لبیک یا رسول اللہ اور اس کے قائد علامہ خادم حسین رضوی کے حصے میں آیا جنہوں نے میدان عمل میں کود کر زاہد حامد سے استعفا جھپٹ لیا اور حکومت ان کا کچھ بگاڑنے میں ناکام رہی۔ یہ لوگ جب لاہور سے چلے تھے تو ان کا ارادہ اسلام آباد پہنچ کر ڈی چوک میں دھرنا دینے کا تھا لیکن جب یہ لوگ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پہنچے تو اسلام آباد کی انتظامیہ نے انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا اور ان کے قدم فیض آباد میں روک دیے۔ چناں چہ یہ لوگ یہیں فیض آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ یہ وہ انٹر چینج ہے جہاں سے گزر کر اسلام آباد کے شہری راولپنڈی اور راولپنڈی کے شہری اسلام آباد آتے ہیں۔ میٹرو بس بھی اس انٹرچینج سے گزرتی ہے اور لاکھوں شہریوں کی آمدورفت روز کا معمول ہے۔ جب کہ آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے دیگر شہروں کی ٹرانسپورٹ بھی اسی راستے سے گزرتی ہے۔ فیض آباد پر دھرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان آمدورفت تو معطل ہونا ہی تھی، پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے راستے بھی محدود ہو کر رہ گئے اور ملک کا ایک بڑا حصہ حصار میں آگیا۔ حکومت نے تحریک لبیک کے کارکنوں کو فیض آباد میں روک کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ حکومت نے ازخود کلہاڑی کی دھار پر پاؤں رکھ کر اپنی رِٹ کو لہولہان کرلیا۔ اگر تحریک لبیک کے کارکنوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے اور ڈی چوک میں دھرنا دینے کی اجازت دی جاتی تو ایسا کچھ بھی نہ ہوتا جو فیض آباد دھرنے کے دوران ہوا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وفاقی حکومت ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئی ہے۔ وزیرداخلہ بار بار بیان بدل رہے تھے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔ دھرنے والے وزیر قانون کے استعفے کے بغیر کسی بات پر راضی نہ تھے ان کے قائد نے جو خود بھی معذوری کی حالت میں وہیل چیئر پر تھا انہیں سمجھا دیا تھا کہ وہ حرمتِ رسولؐ پر جان قربان کرنے آئے ہیں اور ان کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کی واپسی اگر ممکن ہے تو وزیر قانون کے استعفے سے ہی ممکن ہے ورنہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زاہد حامد استعفا دینے پر آمادہ تھے لیکن نااہل سابق وزیراعظم جس کے ہاتھ میں معاملات کی باگ ڈور تھی ان کے استعفے پر آمادہ نہ تھا۔ اب یہ بات بھی صیغہ راز میں نہیں رہی کہ عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے میں جو تبدیلی کی گئی تھی وہ اسی نااہل شخص کے ایما پر اس کے دور حکومت میں کی گئی تھی اور زاہد حامد نے بھاڑے کے ٹٹو کا کردار ادا کیا تھا۔ تاہم قصور وار تو وہ تھے اور سزا بھی انہیں ملنی چاہیے تھی لیکن نااہل شخص اس پر راضی نہ تھا اور وزیراعظم عباسی اس قدر بے اختیار تھے کہ استعفا طلب نہیں کرسکتے تھے۔
باقی صفحہ9پر
متین فکری
اس صورت حال میں عدالتوں نے بھی جلتی پر تیل ڈالا اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے عدالتی احکامات کا سہارا لیتے ہوئے دھرنے والوں کے خلاف ایک نیم دلانہ پولیس آپریشن شروع کردیا جب کہ آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکار بھی اس پر آمادہ نہ تھے۔ چناں چہ جونہی اس آپریشن کی اطلاع عام ہوئی پورا ملک مظاہروں، دھرنوں اور پرتشدد احتجاج کی لپیٹ میں آگیا۔ ایسے میں فوج بروئے کار آئی۔ آرمی چیف نے وزیراعظم سے رابطہ کیا، وزیر قانون کے استعفے پر اتفاق کیا گیا، پولیس آپریشن فی الفور روک دیا گیا، دھرنے والوں کے ساتھ بات چیت کی گئی اور عسکری قیادت نے ضامن بن کر انہیں صلح پر آمادہ کیا۔ جو معاہدہ کیا گیا وہ اس وقت سوشل میڈیا پر موجود ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جب حکومت ناکام ہوگئی تھی، امن وامان قائم رکھنے کے ذمے دار ادارے بے اثر ہوگئے تھے اور ملک میں لاقانونیت کا راج تھا تو کیا ایسے میں فوج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی اور ملک کو آگ اور خون کے حوالے کردیتی۔ لاہور ہائی کورٹ کی یہ آبزرویشن بالکل درست ہے کہ فوج نے دھرنے کا معاملہ سلجھا کر ملک کو ایک بڑے سانحے سے بچالیا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی فوج کے کردار کو سراہا ہے۔
اب نااہل سابق وزیراعظم اس بات پر برہم ہے کہ آپریشن ناکام کیوں ہوا، معاہدے کو حتمی شکل کس نے دی، فوج کو ثالثی کیوں سونپی گئی، حکومت کی ساکھ کیوں متاثر ہوئی؟ کیا اس شخص کو یہ سوالات کرنے چاہئیں جو حکمرانی سے نااہل ہونے کے باوجود پس پردہ حکمرانی کررہا ہے اور حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جو کچھ ہوا اس میں خود اس شخص کی نالائقی کا کمال تھا اس نے اپنی حرکتوں سے حکومت کو بند گلی میں پہنچادیا تھا وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی، ایسے میں فوج بروئے کار نہ آتی تو ملک کا کیا بنتا، ابھی آئندہ انتخابات میں آٹھ نو ماہ باقی ہیں لیکن لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا موجودہ حکومت آٹھ نو ماہ چل سکے گی اور کیا وہ کسی بحران کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ حکومت کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی۔ یہ اصرار درحقیقت حکومت کا نہیں اس نااہل شخص کا ہے جو حکومت کے پیچھے بیٹھا ہے لیکن اگر مدت پوری کرنے کی ضد میں ملک کی قسمت داؤ پر لگ گئی تو کیا ہوگا، کیا یہ مناسب نہیں کہ ملک پر کوئی بھی بُرا وقت آنے سے پہلے عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرلیا جائے اور نئی حکومت نئے عزم کے ساتھ ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرے۔