میاں نواز شریف کو کسی کروٹ چین نہیں ہے تضادات کا مجموعہ بنتے جارہے ہیں۔ ایک جانب عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ماننے سے انکار کررہے ہیں اور دوسری جانب عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے کو منوانے پر مصر رہے۔ اب ایک اور متضاد بات کررہے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کے لیے مارچ کریں گے۔ جب حکمرانی ہوتی ہے تو قانون صرف عوام کے لیے ہوتا ہے۔ اور جب حکمرانی چھن گئی تو قانون کی حکمرانی یاد آرہی ہے۔ یہ صرف میاں نواز شریف ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کے اکثر حکمرانوں کا یہی رویہ ہے وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں اداروں کے وقار، ان کے اختیارات، ان کے فیصلوں اور دائرہ کار کا بالکل لحاظ نہیں رہتا۔ لیکن اگر کسی وجہ سے اقتدار سے باہر نکال دیے جائیں یا نکل جائیں تو اداروں کا احترام، عدالتوں کے فیصلے، قانون کی حکمرانی سب یاد آجاتے ہیں۔ میاں صاحب غیر ضروری طور پر بار بار عدالتوں پر تنقید کررہے ہیں اگر ان کے پاس عدالتی فیصلوں کے خلاف دلائل نہیں ہیں تو پھر وہ اپنی بودی دلیل نہ دیں جس کی زد میں وہ خود بھی آرہے ہوں۔ وہ عدلیہ کے ججوں کو بک رہے ہیں کہ ہمیشہ پی سی او کے تحت آمروں سے حلف لینے والے مجھے کہتے ہیں کہ صادق اور امین نہیں رہا۔ ملک ایسے ہی فیصلوں سے برباد ہوتے ہیں۔ پتا نہیں یہ دھمکی ہے یا بے معنی سی بات لیکن پی سی او والی دلیل تو ان کے لیے ایک اور قابل گرفت بات ہے۔ وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست میں پیدا ہوئے۔ بلکہ گود لیے گئے، پی سی او کے تحت حلف اٹھانے اور فیصلے دینے والوں کے ساتھ مل کر حکمرانی کے مزے لیے۔ اتفاق فونڈری اور اتفاق گروپ پی سی او اور ابھی این آر پر چلنے والے جنرل ضیا الحق کے دور میں مضبوط، مستحکم اور وسیع ہوتا گیا۔ اس قدر ترقی کی کہ دنیا میں اس تیز رفتار ترقی کی مثال نہیں ملتی۔ کاروبار تو دن دونی رات چوگنی بھی ترقی کرتے ہیں لیکن ان کے خاندان کا کاروبار ہر قسم کی ضرب کے فارمولوں سے زیادہ تیز رفتار سے ترقی کررہا تھا۔ اس کے پیچھے پی سی او والے جنرل ضیا الحق اور ان کی ٹیم کا ڈنڈا جو تھا۔ جس میں یہ ہو تو ترقی رہے ہی ہوتی ہے۔ جنرل ضیا الحق کے11 برسوں میں میاں صاحب نے کئی حلف اٹھائے اور سارے کے سارے حلف پی سی او والے ججوں کے ہاتھوں اٹھائے۔ اسے کمال کہیں یا تضادات کمال کہ میاں صاحب جو دلیل صرف اپنے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی وجہ سے پیش کررہے ہیں وہ خود سراسر اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس قانون کی حکمرانی کی وہ بات کررہے ہیں اس حکمرانی کے بھی تو کچھ قانون اور ضابطے ہوتے ہیں۔ میاں صاحب تین مرتبہ ملک کے حاکم اعلیٰ بنے۔ کبھی انہوں نے ملک میں حکمرانی کے قانون پر عمل کیا؟؟ وہ تو اسمبلی، کابینہ اور وزرا کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، فیصلے ان کی کچن کابینہ سے بھی زیادہ مختصر ٹولہ کرتا رہا۔ نہایت سنجیدہ اور سینئر ارکان نظر انداز ہوتے رہے، کیا حکمرانی کا یہی قانون اور ضابطہ ہے؟؟۔ حکمرانی کا ضابطہ دیکھنا ہے تو اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن جناب اسلام کی تاریخ سے سیکھ لیا تو میاں نواز شریف کیا ہوئے۔ میاں صاحب مغربی ممالک میں سے کسی کو ایسا معیار بنالیں۔ جہاں غلط بیانی پر مواخذے ہوتے ہیں۔ ان کے معاشروں میں کرپشن اور پیسہ کھانے سے بڑی برائی جھوٹ بولنا ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا معاملہ لے لیں، رچرڈ نکلسن کا معاملہ لے لیں یہ لوگ مواخذے کی زد میں کیوں آئے۔ ان کا سب سے بڑا جرم جھوٹ تھا اور جن اقوام کو میاں صاحب مہذب سمجھتے ہیں یا جن کو ترقی یافتہ اور اپنا معیار گردانتے ہیں ان سب کا حکمرانی کا قانون سچ ہے۔ یہ لوگ اپنے معاملات چلانے میں معیار سچ کو ہی بناتے ہیں۔ بات صرف امریکا کی نہیں ہے برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا۔ ہر جگہ معیار یہی ہے کہ حکمران امین و صادق ہو۔ اس کے ہاتھ میں ملک امانت کی طرح محفوظ رہے اور وہ سچا ہو۔ لیکن میاں صاحب ان دونوں معاملات میں ناکام رہے ہیں وہ بھارت اور امریکا کے سامنے ملک کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔ ان کے وزیر خزانہ چوں کہ گھر کے آدمی ہیں اس لیے جو سیاہ کریں جو سفید کریں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملک کو یہودی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسا دیا ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے، تجارتی خسارہ بڑھا دیا گیا ہے، برآمدات کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور درآمدات بے حساب بڑھتی جارہی ہیں۔ بات یہاں بھی نہیں رکتی، سی پیک کی شرائط سے قوم واقف نہیں یعنی ملک کی امانت خطرے میں ہے۔ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے جیسے حساس اداروں کو فروخت کرنے کے درپے ہیں، پاکستان اسٹیل تو بھارتی تاجر کے حوالے کرنے پر تیار تھے، پی آئی اے میں جرمن منتظم نہ جانے کہاں سے بھرتی کرلیا گیا جو طیارہ اونے پونے بیچ گیا۔ ضروری نہیں کہ ایک ہزار روپے کی بدعنوانی ہی بدعنوانی کہلاتی ہو۔ میاں صاحب کی اور ان کے خاندان کی دولت کو جو راکٹ لگا وہ دنیا میں صرف زیر زمین گروہوں کی دولت کو لگتا ہے۔ اگر کچھ نہیں کیا تو بھی اقتدار کی وجہ سے اور اس کے استعمال کے سبب ان کو بے تحاشا ترقی ملی۔ کیا میاں صاحب یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولے ہیں، بات تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کی حکمرانی کی ہورہی ہے اور ہمارے آئین میں تو غلط بیانی کرنے والا اور حقائق چھپانے والا امین اور صادق قرار نہیں پاتا۔ جہاں تک قانون کی حکمرانی کے لیے مارچ کرنے کا تعلق ہے تو میاں صاحب تھوڑا صبر کرلیں اگر ان کی پارٹی 2018ء میں انتخابات جیت گئی تو اس مرتبہ دو تین کام کر ڈالیں ایک تو اداروں کی بالادستی قائم کردیں جس کی انہیں اقتدار میں فکر نہیں ہوتی، باہر نکل کر یاد آتا ہے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہے۔ دوسرے وہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ 2018ء میں عوام حتمی طور پر ایسا فیصلہ کریں کہ جسے مارشل لا یا چار پانچ لوگ تبدیل نہ کرسکیں۔ میاں صاحب اس ملک میں وہ نظام نافذ کردیں جس کے لیے یہ حاصل کیا گیا تھا۔ اس نظام کی خصوصیات میں سے اولین خصوصیت یہی ہے کہ اس میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے کیوں کہ وہ قانون ساڑھے تین سو افراد کی اسمبلی نہیں بناتی وہ خالق کائنات کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اسے مارشل لا یا پوری عدالت عظمیٰ بھی تبدیل نہیں کرسکتی۔ جو تبدیل کرے گا خائن اور کافر قرار پائے گا۔ یہ خائن اور کافر کسی مفتی کا قرار دیا گیا نہیں ہوگا یہ خود اللہ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ فاسق ہیں، ظالم ہیں اور کافر ہیں۔ تو میاں صاحب حکمرانی کا قانون وہی ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اسے نافذ کردیں یا ہونے دیں، اس کا راستہ روک کر اپنے لیے آگ اور تباہی کے گڑھے نہ کھودیں۔ ورنہ جسے اللہ مائنس کردے وہ کبھی پلس نہیں ہوسکتا۔