وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے، کہ جو تھا!

552

احمد حاطب صدیقی

آج کل سب بزرگوں کو بیٹھے بٹھائے، یوں ہی کوئی نہ کوئی قصہ یاد آجاتا ہے۔ سو، ہمیں بھی یاد آگیا۔ جب ہمیں یاد آیا تو ہم نے جانا کہ اب ہم بھی بزرگ ہوئے جاتے ہیں۔ یہ قصہ ہے دسمبر 2008ء کا۔ جی ہاں! دسمبر2008ء میں بھی دلچسپ قصے ہوا کرتے تھے۔ اب لیجیے یہ قصہ سنیے اور دیکھیے کہ صورتِ حال میں ’تبدیلی‘ آرہی ہے یا آچکی ہے؟
’’سر! یہی ہے ۔۔۔ یہی ہے۔۔۔ وہ قبرستان!‘‘
درمیان والی سیاہ کار میں بیٹھے ہوئے وزارتِ داخلہ کے اہم افسران اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو ایک سپاہی نے سلیوٹ مار کر اطلاع دی۔
’’ٹھیک ہے! قبرستان کو چاروں طرف سے گھیر لیا جائے!‘‘
موٹی توند والے پولیس آفیسر نے پچھلی جیپ سے اُترتے ہوئے کاشن دیا۔ پولیس کی نفری اپنی اپنی گاڑیوں سے کود کود کر قبرستان کے اِردگرد گھیرا بنانے لگی۔
’’دیکھو! بہت احتیاط کے ساتھ ۔۔۔ بہت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے‘ ہمارا مقابلہ ایک عالمی دہشت گرد سے ہے!‘‘
بڑے پولیس آفیسر نے اپنے کندھوں پر آویزاں پھولوں کو ٹھیک کرتے ہوئے ماہرانہ انداز میں مشورہ دیا۔ پولیس کے جوان حالتِ رکوع میں چلے گئے اور بندوق سیدھی کیے خود ٹیڑھے، ٹیڑھے آگے بڑھنے لگے۔
اعلیٰ افسران چاروں طرف دیکھتے ہوئے محتاط انداز سے آہستہ آہستہ قبرستان میں داخل ہورہے تھے۔
’’یہ ہے ۔۔۔ یہ ہے ۔۔۔ یہی ہے!‘‘
اعلیٰ اختیاراتی ٹیم کے ایک فرد نے ایک کچی قبر کی طرف اِشارہ کیا۔ قبر کے سرہانے لکڑی کا ایک پھٹا سیدھا اور کھڑا نصب کیا گیا تھا پھٹے کے اوپر ہاتھ سے لکھی ہوئی شکستہ تحریر میں درج تھا:
’’حاجی محمد اشرف مرحوم‘‘
ضلع بدین کے اُس قبرستان میں واقع اِس کچی قبر کے گرد کھڑے اعلیٰ حکام شش وپنج میں پڑے ہوئے تھے۔
’’اب کیا کریں؟‘‘
ایک اہل کار نے سوال کیا تو ایک افسر نے جواب دیا:
’’وہی کرو‘ جس کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔
اہل کار نے سر پر رُومال رکھ کر اور توند پر ہاتھ باندھ کر جواب دیا:
’’سر! ہمیں تو قبرستان والوں سے ’’السّلامُ علیکم یا اہل القبور‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے اور عربی میں کچھ ایسے الفاظ پڑھنے کا بھی حکم ہے‘ جن کا ترجمہ یہ بنتاہے کہ تُم ہم سے پہلے چلے گئے‘ اِنْ شاءَ اللہ ہم بھی بہت جلد تُم سے آملیں گے۔ پھر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ سر! میں گاؤں سے کسی مولوی کو پکڑلاؤں؟‘‘
افسر بھڑک اُٹھا:
’’گاؤدی ہوئے ہو؟ مولوی کو لاکر ہمیں بھی مرواؤ گے؟ اپنی فاتحہ پڑھواؤ گے یا ہماری نمازِ جنازہ؟‘‘
اہل کار بھی شاید کسی اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچا ہوا تھا، بولا:
’’وہ تو سر! کبھی نہ کبھی پڑھی ہی جائے گی اور مولوی ہی پڑھائے گا۔ ایک دِن ہم بھی اِنہی حاجی صاحب کی طرح کسی نہ کسی قبرستان میں منوں مٹی تلے سوجائیں گے۔ قبرستان آکر ہر مسلمان کو اپنی موت یاد کرنی چاہیے!‘‘
اب مکالمات کچھ یوں ہونے لگے۔
افسر: ’’فی الحال تو اُس موت کو یاد کرو جو ہمارے سر پر منڈلا رہی ہے!‘‘
اہل کار: ’’سر مسلمان موت سے نہیں ڈرتا!‘‘
افسر: ’’کیا مسلمان مسلمان کی رَٹ لگائی ہوئی ہے‘ اپنا کام شروع کرو!‘‘
اہل کار: ’’کیسے کریں سر؟ اِس قیام گاہ میں تو کوئی کھڑکی ہے نہ دروازہ ہے‘‘۔
افسر: ’’اچھا‘ ایساکرو کہ قبرکے دونوں جانب دو زنجیریں زمین کے اندر گہرائی تک دبا دو‘ پھر اِن دونوں کے سرے قبر پر رکھ کر تالا لگا دو‘‘۔
اہل کار: ’’سر! ایسے تالے کا کیا فائدہ؟ زنجیریں توکوئی بھی زمین کھود کر نکال سکتاہے‘‘۔
افسر: ’’ہم یہاں چوبیس گھنٹے پہرا دینے والی پولیس گارڈ لگا دیں گے۔ زیادہ بک بک نہ کرو‘ ورنہ یہاں تمہاری ڈیوٹی بھی لگ سکتی ہے‘‘۔
اہل کار: ’’اوکے سر!‘‘
تمام کاموں کی تکمیل کے بعد ایک بہت ہی اعلیٰ افسر آگے بڑھ کر ایک اہل کار کو حکم دیتا ہے:
’’حکم نامہ پڑھو!‘‘
اہل کار حکم نامہ پڑھنا شروع کرتا ہے:
’’ملزم مسمی حاجی محمد اشرف مرحوم!
ہرگاہ کہ تم 11 جون 2002ء کو سول ہسپتال حیدرآباد میں 70سال کی عمر میں انتقال کرچکے ہو اور اُسی روز بدین کے اِس قبرستان میں دفن بھی کردیے گئے ہو۔ مگر بھارتی حکومت کے عائد کردہ الزامات کے مطابق تم ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث پائے گئے ہو۔ اگرچہ کہ بھارتی حکومت نے تادمِ تقریر تمہارے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے‘ مگرچہ کسی حکومتِ پاکستان کو اپنے شہری اغیار کے ہاتھوں مروانے کے لیے کسی عدالتی ثبوت کی ضرورت لاحق نہیں ہوتی۔ یوں بھی تمہارے خلاف احکامات تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے نازل ہوئے ہیں۔ جس کو تمہارا نام بھارت کی انتہائی مستعد، چُستعد، چاق وچوبند، چالاک، چنٹ اور باخبر بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے فراہم کیا ہے۔ پس حکومتِ پاکستان اِن ’’فارَن احکامات‘‘ کی تعمیل کرتے ہوئے تمہیں اپنے مرحوم شہری کو تمہاری قبر میں نظربند کرتی ہے اور تمہاری قبر پر مسلح پولیس تعینات کرتی ہے تاکہ تُم یہاں سے نکل کر دہشت گردی کی کوئی اور واردات نہ کر بیٹھو۔ یہ حکم نامہ تمہاری قبر پر چسپاں کیا جاتا ہے‘‘۔
افسر حکم دیتا ہے:
’’اب مووی کیمرہ لایا جائے اور پورے منظر کے ساتھ ساتھ کلوزاَپ میں بھی شاٹ لیاجائے۔ ہر منظر نہایت واضح ہونا چاہیے۔ یہ فلم ہماری سرکار اقوامِ متحدہ، امریکا اور بھارت سرکار کو بھجوائے گی اور اُن سے تعمیلِ احکام کی داد پائے گی‘‘۔
(پردہ گرتا ہے)