سرد مہری کے بعد گرم جوشی

310

بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے‘ پانچ سال کے وقفے کے بعد جاوید ہاشمی کی ملاقات نواز شریف سے ہوئی ہے‘ دونوں کی پہلی ملاقات تحریک استقلال میں ہوئی تھی دونوں اصغر خان کی پارٹی میں رہے ہیں‘ پہلے جاوید ہاشمی نکلے بعد میں ضیاء الحق نے نواز شریف کو کابینہ میں لیا تو نواز شریف اصغر خان سے باقاعدہ اجازت لے کر کابینہ سے نکلے اور تحریک استقلال چھوڑی‘ اصغر خان کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے خود اپنے کارکن کو اپنی پارٹی چھوڑنے کی اجازت دی ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے تو نواز شریف اور جاوید ہاشمی دونوں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا اور جیتا‘ بعد میں نوازشریف صوبائی نشست برقرار رکھ کر صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں آزاد پارلیمانی گروپ کے متحرک رہنماء بنے۔ ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد جاوید ہاشمی مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ جونیجو لیگ ٹوٹی اور نواز لیگ بنی تو جاوید ہاشمی اس میں شامل ہوگئے یوں نوازشریف کے ہم سفر بنے لیکن ایک سیاسی جماعت میں رہتے ہوئے اور نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوئی، دونوں نہر کے کنارے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے پانچ سال کے وقفے کے بعد جو دونوں کی ملاقات ہوئی ہے تو حالات بدلے نہیں ہیں دونوں ایک دوسرے سے متعلق اپنی اپنی رائے پر قائم دکھائی دیے ہیں، دونوں کے تعلقات میں بگاڑ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ جاوید ہاشمی کا دکھ نواز شریف سمجھ نہیں رہے اگر سمجھ رہے ہیں تو اسے اہمیت نہیں دے رہے۔
جاوید ہاشمی بلاشبہ ملکی سیاست کا ایک بڑا نام ہے‘ سیاسی جدوجہد بھی ان کا اثاثہ ہے‘ پنجاب یونیورسٹی سے یہ دور شروع ہوتا ہے اور مصطفی کھر جیسے گورنر سے ٹکر لی‘ طلبہ سیاست میں نام بنایا‘ نواز شریف کا سیاسی سفر ضیاء الحق کی کابینہ سے شروع ہوا اور ابتداء میں ان کے خاندانی کاروبار کو تحفظ ملا‘ جاوید ہاشمی کے پاس کوئی کاروبار ہے نہ سرمایہ‘ جاوید ہاشمی چالیس پچاس سال کے سیاسی سفر کے باوجود اپنا کوئی حلقہ نہیں بنا سکے‘ کبھی لاہور سے جیتے اور کبھی ملتان سے آخری بار اسلام آباد سے جیتے ہیں‘ ہاشمی چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی انتخابی حلقہ ہونا چاہیے لیکن نواز شریف نے کوئی موقع نہیں دیا کہ وہ اپنا حلقہ بنا سکتے‘ نواز شریف کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے دو ہزار سات میں راولپنڈی کی قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی نشست چھوڑی اور ملتان کی برقرار رکھی لیکن پانچ سال کے بعد اب جب کہ انتخابات سر پر ہیں‘ ہاشمی نے تحریک انصاف کے بعد ایک بار پھر مسلم لیگ کے قریب ہونے کی کوشش کی ہے اور خواہش ہے کہ مسلم لیگ انہیں ملتان میں ان کے حلقے میں سپورٹ کرے‘ لیکن وہاں تو گورنر پنجاب کے صاحب زادے ابھی سے امیدوار بنے بیٹھے ہیں۔ وہ کام بھی کر رہے ہیں‘ انہیں اس حلقے میں امیدوار بننے کے لیے گورنر پنجاب کی ندی بھی عبور کرنا پڑے گی۔ جاوید ہاشمی کا دوسرا بڑا دکھ یہ ہے کہ ملتان کے بڑے نام مخدوم شاہ محمود قریشی‘ یو سف رضا گیلانی دونوں جاوید ہاشمی سے سیاسی تعاون لیتے رہے ہیں لیکن آج وہ ان کی حمایت اور مدد کے محتاج نہیں ہیں اور جاوید ہاشمی ملتان میں اپنے لیے کسی مناسب اور محفوظ حلقے کے متلاشی ہیں حلقہ کی تلاش انہیں ایک بار پھر مسلم لیگ کے کنویں پر لے آئی ہے اور وہ مسلم لیگ کے قریب آکر بھی یہاں پیاسے کوے کی طرح پانی کے مٹکے میں کنکریاں پھینک کر پانی نکالنے پر مجبور ہیں۔
خبر تو یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف سے سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی جب ملاقات کے لیے پنجاب ہاؤس پہنچے تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے گلے لگا کر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا‘ مریم نواز نے جاوید ہاشمی کو‘ ویلکم بیک ان ہوم ’کہا‘ لیکن یہ جاوید ہاشمی یہ جانتے ہیں کہ کس بوجھل دل کے ساتھ ملاقات کے لیے پنجاب ہاؤس گئے یہ ملاقات پنجاب ہاؤس کے مہمان خانے کی چھت کے نیچے نہیں ہوئی بلکہ پنجاب ہاؤس کی بالکونی میں ہوئی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سینیٹر پرویز رشید، مریم نواز اور مریم اورنگزیب بھی ملاقات میں موجود تھیں ایسی ملاقات میں جاوید ہاشمی کہاں دل کی بات کرسکے ہوں گے۔ نواز شریف اگر جاوید ہاشمی کو سمجھ لیتے تو ضرور ان سے ون آن ون ملاقات کرتے چوں کہ ان سے ملاقات جلسہ عام میں ہوئی لہٰذا فیصلہ بھی جلسہ عام ہی میں ہوگا ہاشمی صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ گورنر پنجاب اپنی فیملی سمیت بیگم کلثوم نواز کی تیمارداری کے لیے لندن جاچکے ہیں‘ اور شریف فیملی ذاتی وفاداروں کا بہت خیال رکھتی ہے جاوید ہاشمی کبھی بھی نوازشریف کے ذاتی وفادار نہیں رہے‘ باغی کہلانا انہیں پسند ہے‘ اور نواز شریف باغیوں کو پسند نہیں کرتے۔ جاوید ہاشمی خود اچھی طرح سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں اور کبھی بھی اس بات کی تردید نہیں کرسکیں گے کہ ایک ملاقات میں اور یہ ملاقات دو ہفتے کی تگ و دو کے بعد ہوئی تھی‘ پرانی بات ہے مدینہ میں ایک ملاقات میں نواز شریف نے انہیں کہا تھا کہ ہاشمی صاحب آپ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ماضی کے ان تعلقات کے پس منظر کے باوجود وہ نواز شریف سے کچھ پانے کی امید رکھتے ہیں‘ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔