نجفی کمیشن رپورٹ‘ ذمے داری کسی پر نہیں

457

17جون 2014ء میں رونما ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحہ پر خدا خدا کرکے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ شائع ہو ہی گئی۔ اتنا عرصہ کیوں لگا یہ محتاج وضاحت نہیں۔ ویسے تو کمیشنوں کی کئی رپورٹیں ایسی ہیں جو کبھی شائع ہی نہیں کی گئیں مثلاً حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ، تاہم نجفی کمیشن کی رپورٹ میں تاخیر کی وجہ حکومتِ پنجاب کا خوف تھا کہ رپورٹ حکومت اور بالخصوص صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف ہوگی۔ چنانچہ اسے دبانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اس کے لیے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں عمران خان کے طویل دھرنے میں شرکت بھی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے 14 کارکنوں کو پنجاب پولیس نے بڑی بے دردی سے شہید کر دیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ بات ذرا سی تھی۔ طاہر القادری کے مرکز منہاج القرآن کے سامنے تجاوزات کا الزام تھا جسے ہٹانے کے لیے پولیس بھیجی گئی جو اپنی حد سے تجاوز کر گئی اور براہِ راست فائرنگ کی گئی‘ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ سارے مناظر ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائے جا چکے ہیں اور اسی واردات میں گلو بٹ نے بھی شہرت حاصل کی جس نے پولیس افسران کی حفاظت اور پشت پناہی میں گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیے۔ اسے بھی کسی نے نہیں روکا اور صاف لگ رہا تھا کہ پولیس کو ادارۂ منہاج القرآن فتح کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اب یہ بھی واضح ہے کہ پولیس اپنی مرضی سے اتنا بڑا اقدام نہیں کرسکتی۔اسے یقیناًحکومتِ پنجاب کی آشیرواد حاصل تھی۔ چنانچہ نجفی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انسان جھوٹ بول سکتا ہے حالات نہیں‘ پولیس نے وہی کیا جس کے لیے اُسے بھیجا گیا تھا۔ ماڈل ٹاؤن آپریشن کی منصوبہ بندی رانا ثناء اللہ کی نگرانی میں ہوئی‘ وزیر اعلیٰ چاہتے تو خون خرابہ رکوا سکتے تھے‘ پولیس افسران نے دانستہ طور پر سچائی چھپائی۔‘‘ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف و دیگر حکام معصوم نہیں اور سانحہ سے قبل آئی جی اور ڈی سی او لاہور کی تبدیلی شبہات کو جنم دیتی ہے۔ رپورٹ بڑی حد تک مبہم ہے اور اس میں واضح طور پر کسی کو ذمے دار قرار نہیں دیا گیا‘ محض اشارے کیے گئے ہیں۔ چنانچہ طاہرالقادری نے یہ کہہ کر رپورٹ کو مسترد کر دیا کہ اس میں ’’ٹیمپرنگ‘‘ کی گئی ہے۔ انہوں نے تصدیق شدہ کاپی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یعنی بات ابھی ختم نہیں ہوگی۔ پاکستان عوامی تحریک ایک اور دھرنا دے سکتی ہے۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کا نام سامنے آیا ہے اور ان پر پہلے دن سے انگلیاں اٹھتی رہی ہیں لیکن رانا ثناء اللہ نے نجفی کمیشن کی رپورٹ کو نقائص سے بھرپور قرار دیا ہے جسے شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق کسی حکومتی شخصیت کو ذمے دار نہیں ٹھیرایا گیا۔ لیکن رپورٹ کے مطابق ’’انسان جھوٹ بول سکتا ہے‘ حالات نہیں۔‘‘ اور جو حالات تھے وہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے دکھائے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کو کس نے بھیجا تھا اور جب یہ خون خرابہ ہو رہا تھا تو وزیراعلیٰ شہباز شریف کہاں سوئے ہوئے تھے۔ وہ چاہتے تو فوری طور پر یہ واردات رکوا سکتے تھے کیونکہ یہ تمام واقعات ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا چنانچہ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ وہ معصوم نہیں‘ وہ بجائے خود اس قتل عام کے ذمے دار ہیں۔ پورے معاملے پر طویل عرصے تک پردہ ڈالے رکھنے سے بھی شہباز شریف حکومت کی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق نجفی کمیشن رپورٹ میں ذمے داری کسی پر نہیں ڈالی گئی لیکن الزام ہر ایک پر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ واضح طور پر مجرموں کی نشاندہی بھی کی جاتی اور دائرۂ اختیار میں ہوتا تو سزا بھی تجویز کی جاتی لیکن غالباً کمیشن کو اس کا اختیار نہیں تھا۔ عدالتِ عالیہ لاہور نے حکم دیا ہے کہ سانحہ کا غیر جانبدارانہ اور شفاف ٹرائل کیا جائے اور تحقیقاتی رپورٹ 30 روز میں شائع کرکے متاثرین کے حوالے کی جائے۔ پنجاب حکومت نے سانحہ کے حالات و واقعات کے متعلق عدالت عظمیٰ کے سابق جج خلیل الرحمن خان پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں ریٹائرڈ جسٹس خلیل الرحمن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’باقر نجفی رپورٹ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا خدشہ ہے‘ نجفی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں حکومت قبول نہ کرے۔‘‘ رپورٹ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے خدشے کی بات رانا ثناء اللہ نے بھی کہی تھی لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ لوگ مارے گئے‘ متعدد معذور و زخمی ہوئے‘ اس کی تحقیقات کا فرقہ وارانہ کشیدگی سے کیا تعلق ہے۔ کیا یہ شیعہ سنی یا دیوبندی بریلوی جھگڑا تھا۔ سیدھی سی بات ہے کہ قتلِ عام ہوا اس کی تحقیقات کرکے مجرموں کا تعین کیا جائے۔ کسی بھی قتل اور خونریزی کی تحقیقات کے بارے میں یہی کہہ دیا جائے گا کہ کچھ کیا تو فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل جائے گی۔ یہ نکتہ پنجاب حکومت کو ضرور بھائے گا اور وہ نجفی رپورٹ میں روڑے اٹکائے گی۔