جمہوریت کے نام پر مذہب کو گالیاں

434

پاکستان میں حکمران طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ مذہب ہے۔ یہ بیان یا الزام نہیں ہے بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کو کسی طرح بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور یہ مسئلہ آج سے پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ قیام پاکستان کے بعد جب آئین سازی کا عمل شروع ہوا تو مجلس قانون سازی میں یہ مسئلہ زیر بحث آگیا اور پاکستان کے بارے میں شوشے چھوڑے گئے کہ یہ تو سیکولرازم کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قائد اعظم بنیادی طور پر سیکولر تھے بلکہ ان کو تو اسلام کے دائرے سے بھی بہت سے لوگ خارج کردیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کا معاملہ تو قیام پاکستان سے پہلے کا ہے اس لیے علامہ اقبال کو یہ شعر کہنا پڑا کہ؂
جلال پادشاہی کہ جمہوری تماشا
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور آج کل اس حوالے سے سب سے زیادہ بے چینی پیپلز پارٹی کے رہنما چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو ہے۔ ان کا تازہ بیان ہے کہ مذہب کو پھر سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ انہیں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوگا لیکن وہ اس حوالے سے میاں نواز شریف کا سا انداز اختیار کیے ہوئے ہیں، کسی کا نام نہیں لے پارہے، بس اتنا کہا کہ ملک نجی لشکروں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور آئین کے تحت نجی لشکر بھی نہیں بن سکتے۔ لیکن وزیر داخلہ احسن اقبال کو کیا ہوگیا وہ بھی یوں ہی بول پڑے کہ مذہب کے نام پر سیاست ترک کرکے ملک کو چلنے دیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کی وجہ سے ملک نہیں چل پارہا۔ ایک جانب مذہب بیزاری کا اظہار ہے تو دوسری جانب جمہوریت کا بخار۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ جمہوریت پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اس تفاد پر قربان جائیے کہ سب کو خوف مذہب سے ہے یا مذہبی سیاست سے اور دم جمہوریت کا بھرتے ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے اب تک جمہوریت، مارشل لا، اسلامی سوشلزم، جمہوری مارشل لا، مارشل لائی جمہوریت اور اسی طرح کی کئی کھچڑیوں کے ساتھ چلتا رہا ہے لیکن پورے 70 برس میں کبھی مذہب کو ریاست پر حکمرانی کا موقع ملا نہ دیا گیا، بلکہ مذہب کا نام آتے ہی جس طرح سارے شیاطین بھڑک اُٹھتے ہیں اسی طرح مذہب کے خلاف ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگتی ہیں۔ یہ لوگ براہ راست تو مذہب کو بُرا نہیں کہہ سکتے اس لیے سیاست اور جمہوریت کے نام پر مذہب کو بُرا کہتے ہیں۔
پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کو مطعون کیوں کیا جاتا ہے۔ اسے بُرا قرار دینے کی کوشش بلکہ ثابت بھی کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ مذہب کی کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کے دعویداروں کی 70 سالہ ناکامی اس کا اصل سبب ہے۔ یہ ناکام لوگ اپنی نااہلی اور ناکامی کا ملبہ مذہب پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے جمہوری ادوار کا جائزہ لیں تو کس جمہوری دور میں عوام خوشحال، پرامن اور ٹیکسوں کے بوجھ سے آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر نہیں لگاتے۔ پولیس تھانے امن وامان فراہم کرتے ہیں لوٹتے نہیں، سیاستدان جھوٹے و مکار نہیں ہوتے بلکہ عوام کے خادم ہوتے ہیں۔ لیکن کیا جمہوریت کے نام پر سیاست نے 70 برس میں عوام کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ کیا بھٹو صاحب کی جمہوریت، بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوریت یوسف رضا گیلانی کی حکومت جمہوریت تھی۔ شوکت عزیز اور راجا پرویز کی حکومت جمہوریت اصولوں پر پوری اترتی تھی۔ یا اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت جمہوری اصولوں پر چل رہی ہے۔ خورشید شاہ کو جمہوریت اس وقت یاد نہیں آئی جب عدالت عظمیٰ سے نااہل ہونے والے یوسف رضا گیلانی کو وہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کو اپنی پارٹی میں خاندان اور موروثی سیاست جمہوریت نظر آتی ہے، پارلیمنٹ میں جو کچھ ان کی پارٹی کرتی ہے کیا وہ جمہوریت ہے؟ کیا احسن اقبال عدالت عظمیٰ سے نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنوانے کو جمہوریت کہیں گے؟ ان سب نے جمہوریت کے نام پر سیاست کی اور حکومت بھی حاصل کی۔ خرابی یہی ہے کہ ان دو نمبر لوگوں کو اپنی سیاست پر حکومت بھی مل گئی۔ جس طرح سیاست میں بھی جمہوریت کے اصل دعویدار اور اصل جمہوری لوگوں کو پیچھے دھکیل کر دو نمبریوں کو اقتدار دیا گیا اسی طرح مذہب کے حوالے سے سیاست کرنے والوں کو پیچھے دھکیل کر دو نمبری مذہبی لوگوں کو آگے کیا گیا پھر وہ دو نمبریوں کو جمہوریت کے ان دو نمبریوں اور دونمبری میڈیا نے مذہبی رہنما تسلیم کیا اور کروایا۔ اب یہ تینوں مل کر عوام پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں سارا وبال مذہبی سیاست کی وجہ سے آیا ہے۔ یہ تینوں مل کر اصل مذہبی اور اصل جمہوری سیاست دانوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
اگر جمہوری سیاست یا جمہوریت کے نام پر سیاست کے تحفوں کا ذکر کیا جائے تو اس کی فہرست طویل ہوتی چلی جائے گی۔ مذہب کے نام پر حقیقی سیاست کرنے والوں کو تو اس دونمبری ٹولے نے اسمبلیوں سے بھی دور کردیا ہے۔ جب تک عوام اس ٹولے کے سحر میں اور میڈیا کے پروپیگنڈے پر یقین کرتے رہیں گے وہ اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ احسن اقبال، خورشید شاہ اور خصوصاً میاں رضا ربانی ذرا بتادیں کہ پاکستان کس نے توڑا تھا۔ مذہبی سیاست نے یا نااہل جمہوریتوں نے۔۔۔ الطاف حسین کون سی مذہبی پارٹی کے رہنما ہیں ان کی مذہبی سیاست تھی جس نے 35 ہزار لوگوں کی جان لی یا لسانی سیاست تھی۔ ولی خان اور اے این پی کیا مذہبی سیاست کرتے رہے ہیں، بھٹو صاحب نے مذہبی سیاست کرکے پولینڈ کی قرار داد پھاڑی تھی، بے نظیر بھٹو نے مذہب کے نام پر سکھوں کی فہرستیں راجیو کے حوالے کی تھیں اور کشمیر ہاؤس کا بورڈ اتروایا تھا۔ کیا میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے مذہب کے نام پر آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ کیا کراچی میں عزیر بلوچ، اجمل پہاڑی، فہیم کمانڈو، وغیرہ مذہبی جماعت کے رہنما ہیں۔ پنجاب میں جو جاگیردار اور سندھ میں جو وڈیرے ظلم کرتے ہیں یہ مذہبی سیاست کرتے ہیں؟۔ ابھی جرنیلوں کا ذکر نہیں آیا۔ ان لوگوں میں سے دو نے تو مذہب کا نام لیا اور سیاست کی۔ جنرل ایوب نے بھارت سے جنگ کا اعلان کلمہ پڑھ کر کیا، انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا اور جنرل ضیا نے نظام مصطفی کی تحریک کو اغوا کیا انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے مذہب کے نام پر 11 سال حکومت کی۔ احسن اقبال ان کے روحانی وارث ہیں۔ صرف جنرل پرویز نے مذہب بیزاری کی سیاست کی اب جو لوگ مذہب بیزاری کا اظہار کررہے ہیں وہ دراصل جنرل پرویز کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔