ذیابیطس کے بارے میں غلط فہمیاں

416

خطرناک بیماری کو معمولی نہ سمجھیں،سمجھداری کا مظاہرہ کر کے پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے
کینسر کا نام آتے ہی جھرجھری سی آجاتی ہے، فوراً دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کسی کو اس مرض میں مبتلا نہ کرے۔ ایڈز سے بھی خدا کی پناہ، اس کا تو علاج ہی دریافت نہیں ہوا۔ اس میں مبتلا انسان سسک سسک کر آخر کار موت کے منہ میں چلا جاتا ہے لیکن حیران اور پریشان ہونے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان خطرناک امراض سے ہونے والی اموات مل کر بھی ذیابیطس کی وجہ سے مرنے والوںسے کم ہو تی ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیںا ور اس لا علمی کے دوران ہی کئی برس گزار دیتے ہیں۔ اب اگر بار بار واش روم جانے کی ضرورت پڑے ،اسی وجہ سے راتوں کو بھی اٹھنا پڑے ، شدید پیاس لگنے لگے، تھکن میں اضافہ ہو، نظر دھندلی ہوتو وقت ضائع نہ کریںاپنے فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کریںا ور اپنا ذیابیطس کا ٹیسٹ کرا لیں۔
اب ذرا بات کر لیں ان غلط فہمیوں کی جو اس خطرناک مرض کے حوالے سے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ۔ ٹوٹکا ہو یا دیسی علاج،اگر مسلسل مانیٹرنگ کرتے رہیں گے تو اس مرض کی پیچیدگیوں سے خود کو بچانا ممکن ہے۔درج ذیل غلط فہمیوں نے ذیابیطس کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں از خود جگہ بنا لی ہے۔
ذیابیطس خطرناک مرض نہیں: ذیابیطس کے مرض میں مبتلا افرادا ور ان کے متعلقین اکثر و بیشتر اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ یہ مرض سنگین نوعیت کا نہیں اور یہی وہ غلطی ہے جو اس مرض میں مبتلا افراد اس مرض سے منسلک دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اپنے معالج کے پاس مسلسل جاتے رہیں، ادویات باقاعدگی سے لیں،کھانے پینے میں احتیاط برتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے خون میں شکر کی مقدار مانیٹر کرتے رہیں ۔
زیادہ میٹھا کھانا ذیابیطس کا باعث بنتا ہے: ٹائپ ون ذیابیطس کی سب سے بڑی وجہ والدین کی جانب سے یہ بیماری وراثت میں ملنا ہے، جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کی وجہ کھانے نہیں بلکہ زیادہ کیلیوریز والی غذائیں ہیں جن کی وجہ سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ذیابیطس کا سبب بنتا ہے لیکن یہ بھی کوئی حتمی بات نہیںکیوںکہ متناسب جسمانی ساخت کے افراد بھی ذیابیطس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ ذیابیطس (شوگر)میٹھی اشیا کھانے کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔
ذیابیطس قابل علاج ہے : طبی سائنس میں اب تک ہی ہونے والی تحقیق میں ابھی تک کچھ بھی ایسا سامنے نہیں آیا ہے جس میںذیابیطس کے علاج کا کوئی سرا ملا ہو، ایک بار اس مرض میں مبتلا ہونے والا قبر تک اس مرض کو ساتھ لے کر جاتا ہے لیکن یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ اس مرض میں مبتلا ہونے غذا پر قابو رکھ کر اور ورزش کی مدد سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کر کے اور اس کے مشورے ذیابیطس کے مریض اس مرض کی لازمی ادویات سے بھی چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ذیابیطس کی مکمل مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہے۔
ذیابیطس کے مریض میٹھا نہیںکھا سکتے: انسانی جسم کو نشاستے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی حال ذیابیطس میں مبتلا افراد کا بھی ہوتا ہے، ہمارے جسم میں موجود تمام اعضا گلوگوز کو توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ذیابیطس میں مبتلا افراد جب کبھی بھی نشاستے والے غذائیں اور خصوصاً میٹھی اشیا کھائیں تو ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ معالج کے تجویز کردہ ذیابیطس مینجمنٹ پلان سے تجاوز نہ کرے۔
ذیابیطس کے مریض خون عطیہ نہیں کر سکتے: ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت خون عطیہ کر سکتی ہے ، صرف ایک خاص قسم کی انسولین استعمال کرنے والے مریض خون عطیہ نہیں کر سکتے، جبکہ ان مریضو ں میں سے وہ جو صحت مند ہیںا ور ان کا وزن کم نہ ہو تو وہ خون عطیہ کر سکتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو پھل نہیں کھانا چاہیے :پھل ہماری غذا میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن پھل کھاتے وقت مقدار پر توجہ رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو بہت زیادہ پھل کھا لیا جائے اور شوگر لیول بڑھ جائے۔
ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیاانسولین لینا ہوگی : ذیابیطس کا بہترین علاج انسولین ہی ہے لیکن یہ ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کے لیے ہے جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریض مناسب غذا، ورزش اور دیگر ادویات سے کنٹرول کی جا سکتی ہے۔سب سے اہم یہ ہے کہ طرز زندگی میں تبدیلی لائی جائے یعنی تمباکو نوشی کرتے ہیں تو اسے ترک کردیا جائے اور باقاعدہ ورزش کو معمول بنا لیں۔
ذیابیطس صرف بوڑھوں کا مرض ہے:یہ بات ماضی میں ایک حد تک درست تھی لیکن اب تو 5سال سے کم عمر بچے بھی ٹائپ ٹوذیابیطس میں مبتلا ہو رہے ہیں، اب سے دو دہائی قبل تک اگر کسی نابالغ فردمیں اس مرض کی تشخیص ہوتی تھی تو یہی خیال کیا جاتا تھا کہ اس کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے جس کا علاج انسولین کے سوا کچھ ہی نہیں۔لیکن یہ بیماری اب بچوںمیں بھی عام ہوتی جا رہی ہے اور اس سے بچوںکو بچانا والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف ان میں بلکہ اپنی بھی کھانے پینے کی اچھی عادات پروان چڑھائیں ، یعنی کمپیوٹر اور ٹی وی کے سامنے کم وقت ، فاسٹ فوڈ میں حتی الامکان کمی اور جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے۔
اوپر بیان کی گئی علامات جب مجھ میں ظاہر ہوئیں، ساتھ وزن میں بھی تیزی سے کمی ہونے لگی، بہت زیادہ خوشی ہوئی. وزن پر قابو پانے کے لیے کئی جتن کیے تھے لیکن اب تو بنا کسی مشقت کے وزن از خود کم ہورہا ہے ، کئی دوستوںنے ٹوکا کہ کیا ہوگیا وزن کیوں کم ہو رہا ہے پھر بھی احساس نہیں ہوا کہ خطرے کی کوئی بات ہے اور جب یہ باتیں تواتر کے ساتھ ہونے لگیں تو خطرے کی گھنٹی بجی اور ٹیسٹ کرایا۔ لیبارٹری ٹیسٹ نے ثابت کردیا کہ میں ذیابیطس میں مبتلا ہو گیا ہوں۔رپورٹس ہاتھ میں تھیں لیکن یقین نہیں آرہا تھا تو فوراً اپنے والد کا خیال آیا جب ان کو ڈاکٹر نے ذیابیطس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا تو انہوںنے اس ڈاکٹر کے پاس جانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ بہرحال خود کو یقین دلایا کہ میںاس مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔اب جب کسی کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا سنتا ہوں تواپنی ذہنی کیفیت یاد آجاتی ہے۔
جس کسی نے بھی میری اس بیماری کے بارے میں سنا، اس نے حیرت اور افسوس کا ملا جلا اظہار کیا۔ میرا صرف ایک ہی جواب تھا۔ الحمداللہ بیمارہوں،کیوںکہ بیماری تو زندہ لوگوں کو ہوتی ہے مردہ کسی مرض میں مبتلا نہیں ہواکرتا۔جب بیماری کا یقین ہوگیا تو سوچااب اس کے ساتھ گزارا کرنا ہے تو کیوں نہ اس سے دوستی بھی کر لی جائے ۔ ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ان کو رپورٹ دکھائی تو انہوںنے کہا کہ آپ کی عمر ایسی نہیں کہ آپ کو لازماً ادویات کی ضرورت پڑے ،آپ لائف اسٹائل اور کھانے پینے کی عادات و اطوار میں تبدیلی لا کر اس پر قابو پا سکتے ہیںاور اللہ کا فضل ہے صحت بہت بہتر ہے۔
اب ذرااس بیماری کے فائدے بھی بتا دوں ،اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس بیماری میں مبتلا ہونا اچھی بات ہے بلکہ اچھائیوں پر نظر ڈالیں تو مایوسی اور پریشانی باقی نہیں رہتی کیوںکہ یہ بالکل واضح ہے کہ اس بیماری سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر نے ایک بات کہی تھی کہ آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو اب آپ صرف اچھا اچھا ہی کھائیں گے۔ زندگی میںجو الا بلا کھانا تھا کھا لیا لیکن مجھے یقین ہے اب آپ صحت بخش غذائیں کھایا کریں گے اور واقعی ہوا بھی کچھ ایسا ہی ۔چائے پینے کا شروع ہی سے شوق نہیں تو ساری توجہ سافٹ ڈرنکس پر مرکوز رہتی تھی لیکن اب اس پر 95فی صد تک کمی آ چکی ہے۔اس بیماری کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے دوست احباب ہر موقع پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس توجہ میںترس کا عنصر نہیں ہوتا۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ بڑے لوگوں کی بیماری ہے تو پھر سمجھ لیں آپ بیٹھے بٹھائے ’بڑے ‘ہو گئے۔