ایران کے صدر حسن روحانی نے بھارتی سرمایہ کاری سے تعمیر ہونے والی چاہ بہار بندرگاہ کے پہلے مرحلے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ چاہ بہار بندر گاہ کا تصور ویسے تو 15 سال قبل2003ء میں اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی کے دورہ نئی دہلی کے موقع پر پیش کیا گیا تھا البتہ اس پر عملی کام کا آغاز گزشتہ سال مئی میں ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کے بعد ہوا تھا جس پر ایران کے صدر حسن روحانی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔ کئی سال تک سرد مہری کا شکار رہنے والے اس منصوبے پر کام تیز کرنے کا فیصلہ دراصل اس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے چین کی معاونت اور سرمایہ کاری سے دنیا کی سب سے گہری قدرتی بندرگاہ گودار کی تعمیر اور ترقی کے عظیم الشان منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ چاہ بہار کے منصوبے پر اتنا عرصہ کام شروع نہ ہونے کی ایک وجہ اگر ایران پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں تھیں تو اس کی دوسری اہم وجہ چاہ بہار منصوبے سمیت ایران کے بعض دیگر اقتصادی اور اسٹرٹیجک منصوبوں پر امریکی اعتراضات اور اس ضمن میں اس کی جانب سے بعض ریڈ لائینز کا سامنے آنا تھا۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں دہلی میں متعین امریکی سفیر کا اعتراض اور تنقید ریکارڈ پر آج بھی موجود ہے لیکن جب 2015ء میں کئی ماہ تک P5+1 اور ایران کے درمیان جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں ایران نیوکلیئر معاہدہ طے پاگیا جس کے نتیجے میں ایران سے کئی اقتصادی پابندیاں اُٹھالی گئیں اور اسی اثنا میں جنوب مغربی ایشیا میں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم چینی منصوبے سامنے آئے تو امریکا نے اس خطے کے لیے اپنی ترجیحات کا ازسر نوتعین کرتے ہوئے جہاں پاکستان کو چین سے دور رکھنے کے لیے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں وہاں بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی نئی حکمت عملی کے تحت اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر با لفاظ دیگر علاقائی تھانیدار بنانے کی پالیسی کا اعلان بھی کردیا۔ در اصل یہی وہ پس منظر ہے جس میں عمل کا رنگ بھرنے کے لیے بھارت نے اپنے پتے کھیلتے ہوئے اگر ایک طرف 2007ء میں افغانستان کی سارک میں شمولیت کی راہ ہموار کی تو دوسری جانب پاکستان پر سارک کے پلیٹ فارم کے علاوہ افغانستان کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہوئے 2010ء میں طے پانے والے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں بھارت کو پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ بھارت شروع دن سے پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا نہ صرف خواہشمند رہا ہے بلکہ وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مختلف ہتھکنڈے بھی آزماتا رہا ہے کیوں کہ اگر پاکستان بھارت کا یہ مطالبہ مان لے تو اس سے بھارت جو افغانستان کا قریبی اتحادی ہے اور جس نے پچھلے دس پندرہ سال کے دوران افغانستان کے کئی ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ اس کے انفرااسٹرکچر اور مختلف اداروں کی ترقی میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور جو چاہتا ہے کہ اسے پاکستان کے راستے افغانستان کے ساتھ ایک ہزار کلو میٹر سے بھی کم زمینی مسافت کے ذریعے دوطرفہ تجارت کے مواقعے ملیں لیکن جب اس کی یہ مراد پاکستان کی سخت شرائط کے باعث پوری نہیں ہوئیں تو اس نے متبادل آپشن کے طور پر پاکستان کے قریبی پڑوسی ملک ایران کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھاتے ہوئے جہاں چاہ بہار کی بندر گاہ کی تعمیر میں بھاری سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی وہاں اس بندرگاہ کو سڑک اور ریل کے ذریعے افغانستان کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ یاد رہے کہ اسی منصوبے کے تحت بھارت بہت پہلے ایران کی سرحد سے کابل، ہرات، قندہار سمیت چھ افغان شہروں کو باہم منسلک کرنے کے لیے زرنج، دلآرام شاہراہ مکمل کر چکا ہے جب کہ اگلے مرحلے میں ان تمام شہروں کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے چاہ بہار کے ساتھ ملایا جائے گا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بھارتی بندرگاہوں سے چاہ بہار کے راستے افغانستان تک رسائی کے لیے بھارتی کنٹینروں کو چار ہزار کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا لیکن چوں کہ یہ روٹ ہر طرح کے خطرات اور خاص کر پاکستان کے دباؤ سے آزاد ہوگا اس لیے بھارت نے اس منصوبے میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود سرمایہ کاری میں کسی حیل وحجت اور لاپروائی سے کام نہیں لیا بلکہ بھارت نے اس منصوبے کے باضابطہ افتتاح کا انتظار کرنا بھی گوارہ نہیں کیا اور پچھلے دنوں افغانستان میں گندم کا بحران پیدا ہونے اور اس ضمن میں مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے سرد مہری کا مظاہرہ کیے جانے پر بھارت نے لاکھوں ٹن گندم کی تجرباتی کھیپ چاہ بہار کے راستے افغانستان بھیج کر جہاں افغانستان کو دوستی کا پیغام دیا وہاں اس ایکشن کے ذریعے دنیا اور اس خطے کے ممالک کو یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ چاہ بہار جیسے منصوبوں میں بھارتی سرمایہ کاری کا مقصد تجارتی مفادات کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دوست ممالک کی مشکلات کم کرنا ہے۔
اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری اور اس کی ترقی کا بنیادی مقصد جہاں گوادر کے منصوبے کو ناکام بنانا ہے وہاں اس کا دوسرا اہم مقصد پاکستان کو مشرقی سمت سے گھیرنے کے بعد مغرب کی جانب سے اس کے دو برادر پڑوسی اسلامی ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے ذریعے پاکستان سے دور کر کے انہیں اپنا ہمنوا اور دوست بنانا ہے جو پاکستان کے لیے یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔