ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر محمد مالک نے لبیک تحریک کے ایک گروپ کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی سے سوال کیا کہ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ جواب ملا کہ اللہ دے رہا ہے اور پھر جیب سے کچھ روپے نکال کر دکھائے کہ ابھی ایک محفل سے آرہا ہوں عقیدت مندوں نے دیے ہیں علامہ خادم رضوی کی یہاں تک بات درست ہے کہ ہر دینی جماعت کو پسند کرنے والے عقیدت مند قائدین کو نذرانہ دیتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ عقیدت مندوں سے ملنے والے پیسے راستے بند کرنے کے لیے ہیں یا تبلیغ کرنے کے لیے۔ اگر تبلیغ بھی کرنی ہے یہ کام راستے بند کرکے تو نہیں ہوسکتا ہے۔ اس دھرنے کی سب سے مخالف سیاسی جماعت پیپلزپارٹی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کارکنوں کو جلسے میں نہیں آنے دیا گیا، لگتا ہے کہ ہمیں بھی دھرنا دینا پڑے گا۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا دینی جماعتیں، ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنا موقف عوام کے سامنے پیش کرے اور قانون کے دائرے کے اندر رہ کر پیش کرے۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے‘ یہاں آئین بھی ہے اور قانون بھی نافذ ہے‘ الحمدللہ ملک کی ننانوے فی صد آبادی مسلمان ہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوسکتا ہے لیکن اسلام کی حرمت پر ہر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو اس وقت انتخابی فارم میں حلف کی تبدیلی کے حوالے سے جو مشکل پیش آرہی ہے اور جس کے حالات اور رد عمل کا سامنا ہے اور اس کی قیادت اندر سے کس قدر پریشان ہے اس کا اندازہ مسلم لیگ سے باہر بیٹھے پاکستانی کو نہیں ہوسکتا مسلم لیگ کی حکومت یہ کام نہ کرتی اور آج اسے یہ مشکل دن نہ دیکھنے پڑتے، حکومت اس بحران سے نکل سکتی تھی اگر وہ غلطی کی نشان دہی ہونے کے بعد سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی اور قومی اسمبلی میں نواز شریف کی نااہلی کی ترمیم بعد میں منظور کرتی پہلے یہ غلطی درست کرتی لیکن اس کی پارلیمانی پارٹی رد عمل کا ادراک نہیں کرسکی اور وزیر قانون زاہد حامد کی نیت پر شبہ نہیں ہوسکتا لیکن وہ جس طرح دفاع کرتے رہے اس سے اندازہ ہوا کہ وہ یا تو ناسمجھی میں یہ کام کرتے رہے یا پھر واقعی کسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے معاون بنے۔ امریکا یہی تو چاہتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کا حق دیا جائے امریکا تو آج اقلیتیوں کا ماما بنا ہے چودہ سو سال قبل ہمارے بنی مہربانؐ اس حوالے سے ہر بات طے کرگئے ہیں۔
مسلم لیگ کے صدر نواز شریف تو آج کل پلس اور مائنس کے کھیل سے باہر ہی نکل رہے انہیں اس بات کی فکر ہے ملک سے لوڈشیڈنگ ختم ہونی چاہیے لیکن قوم تو ایمان کی روشنی چاہتی ہے‘ یہ تو اسی وقت ممکن ہے کہ جب یہ بات تسلیم کی جائے کہ وہی شخص مسلمان کہلائے گا جو ختم نبوت پر ایمان لائے گا پاکستان میں عوام کی طاقت کا پلڑا اسی لیڈر کے حق میں بھاری ہو گا جو دنیا کی ساری قوتوں کو ٹھکرا کر حب رسول کی بات کرے گا، عوام اسے ہی پلس کریں گے اور باقیوں کو مائنس‘ اب اگر بات مائنس اور پلس کی ہو ہی رہی ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ نواز شریف مائنس ہورہے ہیں‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ حمزہ اور مریم نواز ایک دوسرے کو مائنس کر رہے ہیں‘ لیکن حقائق کچھ اور ہیں‘ اصل بات یہ کہ جو اللہ والے ہوتے ہیں‘ ان کی حفاظت بھی اللہ خود ہی کرتا ہے اور دنیا کا بھی اصول ہے کہ عزت دو عزت لو‘ اب اگر کوئی عدلیہ اور فوج اور دوسرے اداروں پر انگلی اٹھائے اور یہ بھی کہے کہ اسے عزت دی جائے ممکن نہیں سیاست یہ نہیں کہ اپنی سیاسی ضرورت پوری کی جائے بلکہ اپنی ذات پیچھے کرکے ملک کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے رہنماء وہ ہے جو کارکنوں کے دُکھ درد میں شریک ہو‘ اُن کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھے‘ راستہ کتنا ہی دشوار ہو، صورتِ حال کتنی ہی مشکل ہو، وہ احساس دِلائے کہ وہ صرف اور صرف ملک کے لیے کام کرے گا رہنماء کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے‘ مطالعہ کرتا ہے‘ شخصیات کا مشاہدہ کرتا ہے‘ لکھنے والوں کی وہ دِل سے قدر کرتا ہے اور اپنا مقابلہ خود سے کرتا ہے آج کون ہے جو یہ کام کرتا ہے‘ آصف علی زرداری نواز شریف کے درپے ہیں‘ عمران خان نواز شریف کے درپے ہیں‘ اور پاکستان میں تو یہی سیاست ہورہی ہے اگر کسی سے یہ کہہ دیں کہ اپنی خوبیاں بیان کرو‘ عائشہ گلالائی کا خوف ہی دل سے نہیں نکلتا۔