مسلم لیگ ن کے بزرگ لیڈر سردارسکندر حیات خان رفتہ رفتہ اپنی جماعت کی حکومت کے خلاف سخت پوزیشن اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں۔ ان کا ہر بیان انہیں ایک ایسی منزل کی طرف لے جانے کا باعث بن رہا ہے جہاں کم ازکم واپسی کی کوئی راہ نہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنی سینٹرل کمیٹی میں آزادکشمیر کو نمائندگی دیتے ہوئے سردار سکندر حیات خان کو کلی نظر انداز کردیا۔ وہ جو چند برس پہلے مسلم لیگ کے مرکزی نائب صدر کے عہدے کے حق دار قرار پائے تھے اب کی بار سینٹرل کمیٹی کے رکن بھی بننے نہ پائے۔ سکندر حیات خان نے اس پر کسی تاسف اور ناراضی کے بجائے سکھ کا سانس لیا ہے۔ یوں لگا کہ ان کے کندھے ایک بوجھ سے آزاد ہو گئے ہیں۔ تین دہائیوں پر محیط دونوں کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ میاں نوازشریف اور سردار سکندر حیات خان کے سیاسی ستارے ہی نہیں ملتے بلکہ دونوں کے سیاسی انداز میں بھی تضاد ہے۔ میاں نواز شریف کو ایک بار 1991 میں آزادکشمیر میں اپنی پسند کی شخصیت کو حکومت دینے کا موقع ملا تو قسمت اور اقتدار کا ہما سردار سکندر حیات کے بجائے سردار عبدالقیوم خان کے سر پر جا بیٹھا جب کہ سکندر حیات خان ایوان صدر میں مقید کر دیے گئے جہاں وہ کھانے سونے اور سلامی لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ چھڑا کر آزاد فضاؤں میں اُڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ نااہلی کے بعد وہ پوری قوت سے آماد�ۂ مزاحمت ہیں۔ سویلین بالادستی کے نام پر وہ ملک میں ایک فیصلہ کن معرکہ لڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں بھری راہ ہے۔ میاں نواز شریف کے اس سفر کو دوسری سیاسی جماعتوں کی دوری اور دوسری انتہا پر کھڑے ہونے کا فیصلہ مزید مشکل بنا رہا ہے۔ سردار سکندر حیات خان دو بار آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہے ایک بار ملک میں جنرل ضیاء الحق اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ آزادکشمیر کے ایک اور صف اول کے راہنما کے ساتھ ساتھ سردار سکندر حیات خان آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ راجا ظفر الحق کے ڈیرے کا طواف کرتے کرتے ایک روز انہوں نے ساتھی سیاست دان سے ازراہِ تفنن کہا تھا کہ اب راجا صاحب کو کہتے ہیں کہ ہمیں مسلم لیگ ہاؤس میں قبر کی جگہ ہی دے دیں۔ میاں نوازشریف نے مسلم لیگ ن کے قیام کے لیے سکندر حیات خان پر براہ راست اعتماد کرنے سے گریز کیا۔ اس سے پہلے سردار سکندر حیات نے یہ انکشاف کیا تھا کہ میاں نواز شریف نے انہیں مسلم لیگ ن کے قیام کے لیے سات کروڑ روپے کی پیشکش کی تھی۔
میاں نواز شریف اور سردار سکندر حیات خان کے تعلقات کے مدوجزر کا یہ مختصر جائزہ بتاتا ہے کہ دونوں کی فریکوئنسی اور اسٹائل نہیں ملتا۔ سکندر حیات ڈرائنگ روم میں جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر رہے ہیں جب کہ نوازشریف اب میدانوں اور زندانوں کی راہ لے چکے ہیں۔ اسی لیے سکندر حیات خان مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدے اور کسی فیصلہ ساز فورم میں اپنی جگہ نہ پاسکے۔ سکندر حیات خان چوں کہ عملی مزاحمت اور میدانوں کے آدمی نہیں اس لیے وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آماد�ۂ مزاحمت اور سیاسی تنہائی کے راستوں کی طرف نکلتی ہوئی مسلم لیگ ن کی سینٹرل اور ورکنگ کمیٹیوں میں شمولیت پر جہاں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں وہیں سکندر حیات خان اس محرومی پر بھی شاداں وفرحاں ہیں۔ تان وہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ ڈرائنگ روم سیاست دان کے طور پر سکندر حیات خان گھاٹے کا سودا کرنے والے نہیں تو پھر معاملہ کیا ہے؟ وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان جو اپنی سیاسی فریکوئنسی کو میاں نوازشریف کی آنے والے دنوں کی سیاست پر ٹیون کر چکے ہیں اس سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ حکومت اور جماعت درست سمت میں گامزن ہیں بعض کاری گر چاہتے ہیں کہ بزرگ سیاست دان سکندرحیات کو مرکز اور آزادکشمیر حکومت اور جماعت سے دور کرکے افراتفری پھیلائی جائے۔ کاری گروں کی یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ راجا فاروق حیدر خان کی اس گواہی تک تو یہی سمجھا جارہا تھا کہ سکندر حیات خان حسب روایت نکیال کے ترقیاتی فنڈز، فاروق سکندر کی اچھی وزرات، کسی انتظامی افسر کے تبادلے جیسی معمولی وجہ سے پریشاں خیالی کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر یہاں تو معاملہ کچھ اور ہے اور خود راجا فاروق حیدر کہہ رہے ہیں کہ کاری گری شروع ہو چکی ہے تو پھر یہ مانے بنا کوئی چارہ نہیں کہ کاری گری شروع ہو چکی ہے۔ تو گویا اب آزادکشمیر کے عوام کوکاری گر کے کمال اور کرشمے دیکھنا باقی ہیں۔