مزید بیرونی قرضہ

569

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی معیشت پر حال ہی میں حکومت نے مزید ڈھائی ارب ڈالر کا وزن لاد دیا اور یہ حکومت کو کرنا ہی تھا۔ گزشتہ چار ساڑھے چار سال اسحق ڈار صاحب پاکستانی معیشت کے ساتھ جو کھیل کھیلتے رہے اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ اس پورے عرصے میں محترم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چائینز بینک کے ساتھ مل کر قرضوں کی شکل میں ڈالر اکٹھے کرتے رہے۔ ایکسپورٹ گرتی رہیں مگر اس پر بالکل توجہ نہ دی، دوسری طرف امپورٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امپورٹ کی ادائیگی کے لیے ڈالر چاہئیں، اس کے علاوہ جو پہلے سے بیرونی قرضے لیے ہوئے ہیں ان کی ادائیگی بھی ڈالر میں ہونی ہے لہٰذا ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے کہ مزید قرضہ لیا جائے۔
پچھلے ہفتے حکومت نے انٹرنیشنل قرضہ کی مارکیٹ سے پانچ سالہ مدت کے لیے سکوک بانڈ فروخت کرکے 5.62 فی صد کی شرح سود پر ایک ارب ڈالر حاصل کیے اس کے علاوہ دس سالہ مدت کے لیے یورو بانڈ فروخت کرکے 6.8 فی صد شرح پر ڈیڑھ ارب ڈالر حاصل کیے، اسی طرح پچھلے سال اکتوبر میں گلوبل سکوک مارکیٹ سے 5.5 فی صد شرح پر ایک ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ سال 2016-17ء میں حکومت نے بیرونی قرضے میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ کیا جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک سال کی مدت میں اتنا زیادہ قرض لیا گیا ہو، اس میں 4.4 ارب ڈالر پرانے قرضوں کی ادائیگی میں لگا دیے گئے، مجموعی طور پر پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے جولائی 2013ء سے اب تک 35 ارب ڈالر قرض کے طور پر آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، چائینز کمرشل بینک، گلوبل سکوک مارکیٹ اور عالمی فنانسنگ مارکیٹ سے لیے ۔ اس 35 ارب ڈالر میں سے 17 ارب بیرونی قرضوں کی واپسی میں دوبارہ ملک سے باہر چلے گئے۔ جب کہ نومبر 2017ء تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 80 ارب ڈالر سے تجاویز کرچکا ہے۔
ملک کی مجموعی معیشت میں اندرونی معاشی شعبہ کے ساتھ ساتھ بیرونی شعبہ کی بھی بے انتہا اہمیت ہے جس کا تعلق مالیاتی اثاثوں اور زرمبادلہ کے اندرونی اور بیرونی بہاؤ سے ہے۔ ان میں غیر ملکی تارکین وطن کے ترسیلات زر، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (F.D.I)، اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری، غیر ملکی امداد اور قرضے، برآمدات سے ہونے والی آمدنی، درآمدات کی ادائیگی، اندرون اور بیرونِ ملک سفر کے دوران سرمائے کی منتقلی شامل ہے۔ اگر اندرونی اور بیرونی سرمائے کی منتقلی یکساں رہے تو اس کا مطلب ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا حساب مستحکم ہے جس سے ملکی معیشت کو مضبوطی اور استحکام ملتا ہے اور قرضوں کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑتا۔ گزشتہ چار سال سے بیرونی شعبے پر توجہ نہیں دی گئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں اپنا سرمایہ لگانے کو ترجیح نہیں دی جس کی وجوہ میں دہشت گردی، کرپشن اور غیر ضروری کاغذی کارروائی ہے۔ حکومت نے سرکاری اداروں میں کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی ایف بی آر کے اہلکاروں اور افسران اپنی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ اوپر کی کمائی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری اداروں میں کسی کام کو کرانے کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک دن کا کام ایک مہینے میں ہوتا ہے، ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کیوں آئے گا۔ دوسرا اہم عنصر برآمدات سے ہونے والی آمدنی ہے، جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو سالانہ برآمدات 25 ارب ڈالر کے قریب تھیں اور وزارت تجارت نے آئندہ کا ہدف 35 ارب ڈالر طے کیا تھا۔ لیکن اگلے ہی سال یہ برآمدات بجائے بڑھنے کے کم ہوگئیں، اس پر حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہیے تھا، مگر چاہے وہ وزارت خزانہ ہو یا وزارت تجارت یا وزارت منصوبہ بندی، کسی نے توجہ نہ دی، اس طرح وزارت افرادی قوت کو دوسرے ممالک سے معاہدے کرکے افرادی قوت کو باہر بھیجنے کی منصوبہ بندی کرنا تھی تا کہ ترسیلات زر میں اضافہ ہو، اس طرف بھی توجہ نہ دی گئی بلکہ مختلف عرب ممالک میں تارکین وطن کے لیے قوانین میں طرح طرح کی پابندیاں لگائی جارہی ہیں اس سے ترسیلات زر کے کم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس طرح پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ بڑھتا جائے گا اور ملک قرضوں کے بوجھ میں ڈوبتا چلا جائے گا۔
حکومتی اقدامات اور رویے سے ایسا نظر آتا ہے کہ اسے بیرونی شعبے کی بہتری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک بیرونی قرضے کے حجم میں مزید اضافہ ہوجائے گا جو ملکی معیشت کو مزید کمزور کرے گا۔