وفاقی حکومت نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ( فاٹا) میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا قانون ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا گیا جس کو کل (پیر) تک منظو ر کرلیا جائے گا۔ یہ اقدام فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی طرف ایک اہم اور بنیادی قدم ہے چنانچہ ممکنہ طور پر اس سے وہ تحریکیں رک جائیں گی جو انضمام کے لیے احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کرچکی ہیں ۔ تاہم بعض اطلاعات کے مطابق انضمام کے عمل میں ابھی ایک عرصہ لگے گا حالاں کہ یہ کام جلدی ہو جانا چاہیے۔ خبروں کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں فاٹا کے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ہوگا۔ لیکن یہ اختیار توانضمام کے بعد ہی مل سکتا ہے، اس اختیار کا ایف سی آر کے خاتمے سے تعلق نظر نہیں آتا۔ تاہم رائے دہی اور اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دینے کا تعلق عام انتخابات سے ضرور ہے اور یہ وفاقی حکومت کی انتخابی مہم کا حصہ قراردیا جاسکتا ہے۔ موجودہ ن لیگی حکومت کو یہ گمان ہوگا کہ اس اقدام سے فاٹا کے عوام اسی کو ووٹ دیں گے۔ اگر ایسا ہے تو بھی اس طرح سے فاٹا کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے اور اب وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرسکیں گے۔ اس کے لیے عدالت عالیہ پشاور اور عدالت عظمیٰ کو فاٹا میں بھی اپنی شاخیں قائم کرنا ہوں گی اور وہاں کے عوام پولیٹیکل ایجنٹوں کی من مانی سے نجات حاصل کرلیں گے۔ قیام پاکستان کو 70برس گزر چکے ہیں لیکن ایک بہت بڑا علاقہ اب تک ان حقوق سے محروم ہے جو ہر پاکستانی کو حاصل ہیں ۔ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد انضمام کا مرحلہ بھی طے کرلینا چاہیے ورنہ خیبر پختونخوا کے کچھ عناصر حکومت پر دباؤ ڈ التے رہیں گے اور ن لیگ کی حکومت پہلے ہی بہت دباؤ میں ہے۔ دباؤ اتنا شدید ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی بین السطور یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اگلی حکومت ن لیگ کے سوا کسی اور کی ہوسکتی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں کہ ’’ ہم اتنے سیدھے نہیں کہ کسی دوسرے کی حکومت کو چلنے دیں‘‘۔ پھر آج ( اتوار کو) فیصل آباد میں خواجہ حمید الدین سیالوی کی قیادت میں ہونے والا مشائخ اور سجادہ نشینوں کا جلسہ بھی نیا رخ متعین کرے گا۔ اس لیے ن لیگ کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف فاٹا کے انضمام کا اعلان کردے بلکہ قوم سے جو جو وعدے کیے یہں انہیں بھی آئندہ چھ ماہ میں حتمی شکل دے دے، مستقبل کا کیا بھروسہ۔ مذکورہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز نے وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کمیٹی کی سفارشات پر تیزی سے عمل جاری ہے۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے دائرہ کار کو فاٹا تک رسائی دینے کے لیے ایف سی آر کے خاتمے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔ علاقے کو معاشی، انتظامی اور سلامتی کے حوالے سے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت سے رابطے میں ہیں۔ انتظامی امور مکمل ہونے کے بعد علاقے کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے گا۔ انتخابات تک انضمام مکمل نہ ہوا تو بھی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ حکومتوں کا عمومی طریق کار یہی ہے کہ اہم فیصلے کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔ جہاں ایف سی آر ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا وہیں انضمام کا بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کردیا جاتا۔ اگر یہ خبر صحیح ہے کہ انضمام میں دو سال لگ سکتے ہیں تو اس کے بڑے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز فرماتے ہیں کہ حتمی تاریخ نہیں دی جاسکتی۔ آخر اس سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے میں اور کتنی تاخیر کی جائے گی۔