ایم ایم اے کی بحالی۔ خدشات، توقعات

613

عبدالمعید خان

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
شاعر مشرق علامہ اقبال نے برسوں پہلے جس خواہش کا اظہار کیا تھا اسے عملی روپ دینے کے لیے وطن عزیز کی چھ دینی جماعتوں کے قائدین جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں علامہ کے یوم پیدائش کے روز جمع ہوئے، طویل مشاورت کے بعد ایم ایم اے کی بحالی کے لیے اصولی اتفاق کرکے اُٹھے۔ یہ خبر ملک کے سیکولر طبقے پر بجلی بن کر گری، محسوس یہ ہورہا ہے کہ قائدین پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کا اشارہ سب سے پہلے سراج الحق نے کئی ماہ قبل علمائے دیوبند کے اجتماع میں مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرکے دیا تھا۔ بعدازاں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر گفتگو ہوئی جہاں منصورہ میں جمع ہو کر معاملات کو مزید آگے لے جانا طے ہوا۔
دینی جماعتوں کا اتحاد ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے، نتائج و مقاصد کے حصول میں ہمیشہ دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ ایم ایم اے کے گزشتہ دور میں مرحوم قاضی حسین احمد کا کردار بہت شاندار رہا ہے۔ قاضی حسین احمد کی انتھک کوششوں سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جنید علما اکٹھا ہوئے اور لبرل اور سیکولر طبقات کے اس پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی کہ آخر کون سا اسلام بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث یا شیعہ، ملک کے سیکولر عناصر یہ بات بھی تواتر سے کرتے رہتے تھے کہ یہ دینی لوگ مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو کافر کہتے رہتے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ قاضی صاحب مرحوم نے عہدوں و مناصب کی تقسیم کے وقت نہایت ایثار کا مظاہرہ کیا، خود لوگوں کو جمع کیا اور اپنی ذات کو ایم ایم اے کے عہدوں کے حصول کے موقع پر پیچھے کرلیا۔ شاہ احمد نورانی مرحوم کا نام صدارت کے لیے پیش کردیا، محترم سراج الحق کے لیے قاضی صاحب کا تدبر‘ معاملہ فہمی اور ان کی دلآویز محبت یقیناًروشنی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایم ایم اے کی 2002ء میں تشکیل زیادہ کٹھن مرحلہ تھا اب جب کہ محض بحالی کا معاملہ ہے تو پچھلے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھا جائے۔ تمام تر احتیاط کو ملحوظ رکھا جائے، نیک نیتی، اخلاص سے تمام اختلافات رفع ہوسکتے ہیں۔ ایم ایم اے کو مجروح اور بے حال کرنے والے پر نظر رکھی جائے، مولانا فضل الرحمن کی سیما بی شخصیت خود جے یو آئی میں متنازع ہے، پہلے مولانا سمیع الحق جدا ہوئے پھر نظریاتی گروپ بنا، ایم ایم اے میں بھی مسائل کے وہی بڑی حد تک ذمے دار ہیں، دراصل مولانا فضل الرحمن بیک وقت کئی کشتیوں کی سواری کے شوقین ہیں، ان کے معاملات مطلوبہ شفافیت سے عاری ہیں۔
مصدقہ خبر ہے کہ نیب کے نئے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے نئے میگا کرپشن مقدمات پر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ان میں مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کی حکومت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی اور اے این پی کے اسفند یار ولی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی ایک سال سے کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی ہے ملک میں بلاتفریق احتساب چاہتی ہے، ایسے افراد کے ساتھ اسوہ رسولؐ پر مبنی سیاست کیوں کر کی جاسکتی ہے، دوسری جانب مولانا سمیع الحق شروع ہی سے مولانا فضل الرحمن سے شاکی رہے ہیں، اب بھی وہ ایک طرف نئے مذہبی اتحاد کا سوچ رہے ہیں تو دوسری طرف وہ عمران خان کے ساتھ اتحاد کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ علامہ ساجد میر ایم ایم اے سے زیادہ نواز شریف کے ساتھ قربت رکھتے ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے زیادہ بروئے کار آتے ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمن آج بھی یکسو نہیں دکھائی دیتے وہ ایم ایم اے کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ وہ نواز شریف سے اچھی سودے بازی کرسکیں۔
اللہ، رسولؐ اور قرآن کا نام لے کر سیاست کرنا ایک مختلف تقاضے کا حامل ہے۔ ایک بلند اخلاق، اعلیٰ کردار، بہترین اوصاف اور شاندار برتاؤ کا مطالبہ کرتا ہے، اسی کو اسلامی سیاست کہتے ہیں۔ سیکولر اور لبرل طبقات اس سیاست سے ناآشنا ہیں۔ اسلامی سیاست جداگانہ طرز کی حامل ہوتی ہے اس کے قائدین سچائی، دیانت، شرافت کا مینارہ اور کردار کا ہمالیہ ہوتے ہیں۔ مکر و فریب، بدعنوانی، غلط بیانی، کرپشن اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں غیر اسلامی سیاست کا طرہ امتیاز ہیں اور انہی پر سجتی ہیں اور اسی کے لیے کافی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اگر دینی قیادت اور اسلامی سیاست کے دعویدار بھی وہی کچھ کریں جو غیر دینی و غیر اسلامی سیاست کے حاملین کرتے ہیں تو پھر دینی سیاست کا جھنڈا لہرانے کی آخر کیا ضرورت ہے؟۔ تمام دینی قیادت سے عرض ہے کہ جتنے بھی علما و زرعما جو دین کا پھریرا لہراتے ہیں سب کے سب اللہ کے ہاں ماخوذ ہوں گے اگر آپ دین کا نام لے کر مسلمانان پاکستان کو مایوس کریں گے یاد رکھیں آپ کی ناکامی محض ناکامی نہیں ہوگی بلکہ اسلامی سیاست کی ناکامی کہلائے گی۔ جسے سیکولر لابی اسلام کی ناکامی قرار دینے میں تن من دھن سے جٹ جائے گی۔ اگر دین کے حوالے سے سیاست کرنی ہے تو پھر اسلامی سیاست اور غیر اسلامی سیاست کا فرق واضح کرنا ہوگا۔ ثابت کرنا ہوگا کہ نبی اکرمؐ اور خلفائے راشدین کا طرز سیاست آپ کا رول ماڈل ہے، آپ واشنگٹن، بیجنگ، ماسکو یا لندن کی طرف نہیں دیکھتے ہیں بلکہ آپ کو مدینہ سے رہنمائی ملتی ہے۔
ایم ایم اے کی بحالی جن پر گراں گزر رہی ہے وہ سراسیمہ اور پریشان ہیں۔ آپ کامیابی سے آگے بڑھے تو وہ دفاعی پوزیشن پر چلے جائیں گے۔ عوام، خواص، دانشور، تجزیہ کار اور تھنکرز (Thinkers) سب کے لیے یہ پیغام ہے کہ سیاست میں دین کا حوالہ سیاست کو بہت مضبوط، بہت جاندار، بڑا نتیجہ خیز، بڑا فعال اور مکمل کامیاب بناتا ہے، اس سے بڑی انسان دوستی انسانی ذرائع پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو دین نے سیاست کو میسر کی ہے۔ مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست اسلامی سیاست کا شاہکار تھی۔ ایسی آسودہ، اتنی خوشحال رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے اتنی بڑی مثالی ریاست نہ دنیا نے اس سے پہلے دیکھی نہ اس کے بعد۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست کے دینی حوالوں کو سمجھا جائے، ان پر گفتگو کی جائے، بحث و تمحیص ہو، مکالمہ ہو، تا کہ عام فرد سے لے کر خاص افراد تک سب پر اسلامی سیاست کی حقیقت آشکار ہو، یہ ضرورت اس وجوہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے جب دنیا کے اربوں انسان غیر اسلامی سیاست کے سارے رنگ، جنگیں، خونریزی، کرپشن، استیصال، ناانصافی، غربت، پسماندگی، بے راہ روی، انسان دشمنی اور دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہے ہوں۔ کیا ہمارا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اس میں دلچسپی رکھتا ہے کہ لوگوں تک اسلامی و غیر اسلامی سیاست کا فرق پہنچائے۔