نسیم بیگم،عجب خان کالونی، نارتھ ناظم آباد
قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں، جو احساسِ شکست بن کر مسلسل انہیں کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکا ایک ایسا ہی واقعہ ہے جب ہمارے ازلی دشمنوں امریکا، بھارت اور اسرائیل کی مکروہ سازشوں نے وطن عزیز کو دولخت کردیا، اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر قوم اور سپاہ نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 1971ء کی جنگ میں افواج پاکستان نے 1965ء کی نسبت 3 گنا زیادہ نشان حیدر حاصل کیے لیکن اس شکست کی بڑی وجہ ملک پر بے حمیت اور بے حس لوگوں کی حکمرانی تھی جو شیطانی اتحاد ثلاثہ کے ہاتھوں کھلونا بن کر پاکستان کے ٹوٹنے کی فکر سے بے نیاز، شراب و شباب کی محفلوں میں غرق تھی، جب شمشیر کی جگہ رباب، اتحاد کی جگہ انتشار اور ایمان کی جگہ نفاق آجائے تو یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ ایک ایسا نظریاتی ملک جو اسلام کے نام پر عالم وجود میں آیا اور جس کی بنیادوں میں لاکھوں جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا خون شامل ہوا۔ اسی ملک کی سیاسی قیادت نے بالخصوص اور پوری قوم نے بالعموم جب نظریہ پاکستان ’’لاالٰہ الاللہ‘‘ سے مسلسل روگردانی کی اور دین کا وہ رشتہ جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو جوڑے ہوئے تھا کمزور ہوتا گیا تو بھارت نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان میں علاقائی تعصب کو ہوا دی اور خود پاکستانیوں ہی میں سے ایک مضبوط لابی اپنی حمایت میں تیار کرلی۔ نااہل حکمرانوں، میر جعفروں اور میر صادقوں نے مسلمان کو مسلمان سے لڑوا دیا۔ زبان اور رنگ کی بنیاد پر مشرقی پاکستان میں زبردست خانہ جنگی پیدا کردی گئی اور پھر وہ دن آگیا جسے ہم اسلامی تاریخ کے سیاہ ترین دن کے نام سے جانتے ہیں۔
16 دسمبر 1971ء جب تاریخ میں پہلی مرتبہ 90 ہزار مسلم سپاہیوں نے ہندوؤں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ المیہ مشرقی پاکستان نہیں المیہ پاکستان ہے۔ ہزاروں میل دوری کے باوجود دونوں حصوں نے صرف کلمہ کی بنیاد پر ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور صرف یہی نکتہ اتحاد تھا۔ جب یہ نکتہ کمزور ہوا تو ملک کمزور ہوا، مذہب کی قوت نے پاکستان بنایا تھا لیکن جب ریاست نے مذہب ہی کو ریاست سے نکال دیا تو ملک قائم نہ رہ سکا اور ٹوٹ گیا۔ افسوس کہ ہر سال 16 دسمبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے لیکن ہم کبھی اس دن نہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں، آج 46 سال گزرنے کے بعد اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم اسی صورت حال کا شکار ہیں۔ 1971ء میں بھی ہم امریکا کے اتحادی تھے اور اس وقت بھی ہمیں تسلیاں دی گئیں کہ امریکی بحری بیڑہ پاکستان کے ساحل پر آنے والا ہے، ہمارا بیڑہ غرق ہوگیا لیکن ان کا بیڑہ نہیں پہنچا۔ امریکا نے بھارت کا ساتھ دیا، مکتی باہنی کا ساتھ دیا، اس نے ہمارا ملک دولخت کرنے میں بھارت کا ساتھ دیا لیکن ہم آج بھی اسی امریکا کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ امریکا تو آج تک ہم سے بے وفائی کررہا ہے لیکن ہمارے حکمران امریکا کے ساتھ مسلسل تعاون کررہے ہیں اور وہ ہمارے فوجی جوانوں کو خاک و خون میں نہلا رہا ہے۔
المیہ سقوط مشرقی پاکستان سے اگر ہم سبق سیکھتے تو آج ہمارے ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہم سے نالاں ہے اور وہاں کے شہری اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں، پاکستان کے بے حس اور مفاد پرست حکمران طبقے کو اس امر کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کہ ان کی ناقص پالیسیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے وسائل سے مالا مال وطن عزیز کے حالات کس قدر خراب ہیں، اگر ہم آئندہ ایسی صورت حال سے بچنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر پہلے تو امریکا کی گود سے نکلنا ہوگا کیوں کہ آج تک پاکستان کو ملنے والے تمام ہی دکھ واشنگٹن سے ہو کر آتے ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بحیثیت قوم ہمیں اللہ سے گڑگڑا کر معافی مانگنا ہوگی اور نبی کریمؐ کی سنت اور اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر حالات کو بدلنا ہوگا اور ایسے حکمران منتخب کرنے ہوں گے جو نبی کریمؐ کی پیروی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں جن میں دیانت اور امانت کے اسلامی اصولوں پر چلنے کا جذبہ ہو اور جو پاکستان کو ایک مجسم اسلامی خوشحال ملک بنا سکیں، اللہ ہمارے پیارے وطن کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔